• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16ستمبر ہم سب عورتوں کے لئے بڑی خوشی کا دن تھا۔ آج سے 32 برس پہلے ویف کی ابتداء ہوئی تھی یعنی ویمن ایکشن فورم وجود میں آیا تھا ہم سب اکٹھی تھیں۔ یاد کر رہی تھیں کہ ضیاء الحق کے دور میں کیسی کیسی اذیت سہی تھیں، سنسر شپ کی پابندیاں نافذ تھیں نہ جلوس نکال سکتے تھے نہ کچھ اخبار میں لکھ سکتے تھے۔ ریڈیو ٹیلی وژن تو تھے ہی سرکار کے، ان پر تو جماعتوں کا قبضہ تھا اندھی عورت صفیہ بی بی کو زنا کے باعث کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ وہ بتا ہی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ زیادتی کس شخص نے کی ہے قانون شہادت اور دیت کے خلاف جلوس نکالنے پر ہم سب کو لاہور مال روڈ پر آنسو گیس اور ڈنڈوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حبیب جالب کو تو بہت مار پڑی تھی یہ وہ زمانہ تھا کہ باپ بیٹی اکٹھے جا رہے ہوتے تھے تو پولیس والے نکاح نامہ مانگتے تھے۔ یہ سب ماضی تھا ہم سب یہ بیان کرتے ہوئے خوش تھیں مگر آنکھوں سے آنسو رواں تھے پانچ سے سات سالہ بچیوں کے ساتھ ایک ہفتے میں 10 دفعہ زیادتی ہوئی ہے۔ یہ سوچ کر روح کانپ رہی تھی کہ اس بچی پرکیا گزری ہو گی اس کی ماں کا کیا حال ہوگا آخر یہ ہماری محنت اور مسلسل کاوش کے تیس برس کیا ضائع ہو گئے۔ ملالہ جیسی بچیوں کے اسکول مسمار کئے گئے، غیرت کے نام پر قانون پاس ہونے کے باوجود روز اپنی پسند کی شادی کرنے پر فاٹا سے لیکر عمر کوٹ تک ہمارے بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، رونا اس بات کا ہے کہ پہلے تو قانون ہی پاس نہیں ہونے دیتے تھے اب قانون پاس ہو گیا ہے تواس پر عملدرآمد کے لئے نہ حکومت سنجیدہ نظر آتی ہے اور نہ پولیس انتظامیہ۔ ہم نے تیس برس عورت کی برابری کے لئے محنت کی مگر جب سات عورتوں کو جعفر آباد میں زندہ درگور کر دیا جاتا ہے وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھیں یہ رسم صرف پاکستان ہی میں نہیں روا رکھی جاتی ہے ہندوستان میں بھی ہر مذہب کے بچے بچیوں کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے مگر وہاں ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے پر، چار ملزموں کو سزائے موت تو سنائی گئی۔ ہمارے یہاں پولیس کا یہ حال ہے کہ شہباز بھٹی کے قاتل خود بتاتے تھے کہ ہم نے اسے مارا ہے ہمارے یہاں پھول سی بچیوں پر زیادتی کرنے والے پکڑے نہیں جاتے ہیں۔
برطانیہ میں جتنے مسلمان خاندان ہیں وہ بھی اپنے پاکستانی رشتہ کے نوجوانوں سے لڑکیوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں حکومت برطانیہ اس زیادتی کے خلاف میڈیا اور اسکولوں کے نصاب کے ذریعہ مسلسل شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ہمارے میرپوریے اور پنجاب کے بیشتر گھرانے ایسی کوشش میں ہیں کہ لڑکی خاندان ہی میں رہے ۔ بی اے پاس لڑکی کو نکمے کزن سے بیاہ کر خوش ہوتے ہیں۔
شادی کا جھنجھٹ تو ایک طرف رہا جب سے ریمنڈ ڈیوس کا دیت کا قصہ ہوا ہے اب یہ دیت نہیں، کاروبار ہو گیا ہے اور وہ بھی بین الاقوامی سطح پر، یوں تو ہمارے دیہاتوں میں صلح صفائی کے نام پر، خون کی معافی ہو جاتی رہی ہے مگر اب تو سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ قتل کرنے والے جیل سے باہر آتے ہیں تو فتح کا نشان بناتے ہوئے آتے ہیں۔ غضب خدا کا۔ ٹیلی ویژن والے ایسی تصاویر بار بار دکھاتے ہیں خون کھول جاتا ہے اس بے شرمی اس دیدہ دلیری اور اس رعونت پر یہ کوئی روحی بانو کا جوان بیٹا تھوڑا ہی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلا قاتل کون تھے۔ ماں دیوانی ہو گئی پاگل ہو گئی۔ جوان بیٹے کو تلاش کرتی کرتی بے حال ہوگئی۔ بالکل اسی طرح فہمیدہ ریاض، اپنے 26 سالہ نوجوان بیٹے کی ڈوبنے کے باعث وفات پر آج تک زار و قطار روتی ہے۔ہم ویف کی عورتوں کا بھی یہی حال تھا۔ ایک آنکھ روتی تھی اور ایک ہنستی تھی۔ مائیں سہمی ہوئی بچیوں کو اپنے کلیجے سے چمٹا رہی تھیں۔ مجال ہے کوئی مذہبی جماعت کے کسی رہنما نے آواز اٹھائی ہو۔ کسی نے یہ کہا ہو کہ ایسے بے غیرتوں کو پھانسی دی جائے۔ بس بیان آتا ہے تو عورتوں کے خلاف۔ بچیوں کے اسکولوں کے خلاف۔ میں نظم لکھنے بیٹھی تو چند سطروں کے بعد میری آنکھیں کچھ نہیں دیکھ سکتی تھیں میرے سامنے میری بچیوں کے سائے تھے۔
یاد کی گلابی میں آج بھی چھلکتی ہیں/ ننھی ننھی پوریں جو میری انگلیاں پکڑے خوب چہچہاتی تھیں/ جب بھی میں تیرے ننھے/ پیر چومتی ہوتی/ سوچی ہی رہتی تھی/ یہ زمین پتھر ہے/ اس پر بسنے والوں کے دل بھی سخت پتھر ہیں/ تیرا پھول جیسا جسم/ کیسے سہہ سکے گا پھر/ زہر میں بجھے فقرے/ تیر اور طمانچے بھی/ آج میرے آنگن میں یاد کی گلابی پھر اداسیاں پہنے آن ٹھہری ہے۔
ادھر میری بچیوں کے ساتھ یہ سلوک اور آج یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ پولیس جو اعلان کرتی تھی بقول شہباز شریف پولیس بہت شریف ہو گئی ہے اب یہ چینلز دکھا رہے ہیں کہ گھروں میں ٹارچر سیل بنائے ہوئے ہیں اسلام آباد اور پنڈی میں تو سیاسی لوگوں کو ان ٹارچر سیلوں میں رکھا جاتا تھا اور شاید ہے بھی۔ سول سوسائٹی شور مچاتی ہے کہ بچوں کے تحفظ کا قانون اور بچوں کے ساتھ زیادہ کرنے کے قانون پر فوری عملدرآمد کیا جائے ایسے زیادتی کا شکار ہونے والے بچے بچیوں کے نام یا ان کے خاندان کی تصاویر، میڈیا پر نہ دکھائی جائیں۔
ہم تیس بتیس سال پہلے بھی یہی کہہ رہے تھے اور آج تو حالات اور بھی خراب ہیں۔ حکومت ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان کے گرفتار ملزمان کو رہا کرنے جا ر ہی ہے جو ہمارے این جی اوز ہمارے بچوں اور ہماری بچیوں کے اسکولوں اور دفاتر کو تباہ کرتے رہے ہیں اور ہمارے عظیم فوجی سربراہوں کو بارودی سرنگوں کے ذریعے تباہ کر کے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نے کیا ہے۔
تازہ ترین