• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّدہ مایوں ظفر

مَیں ہر ماہ گھریلو اخراجات اور بیوی بچّوں کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے بعد کچھ رقم پس انداز کرکے مرکز قومی بچت سے بہبود سرٹیفکیٹس خرید کر رکھ لیا کرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب کافی تعداد میں  سرٹیفکیٹس جمع ہوگئے، تو سوائے چند کے بقیہ تمام سرٹیفکیٹس کے عوض پچیس لاکھ روپے مالیت کا ایک سرٹیفکیٹ خرید لیا۔ اب اس بھاری مالیت کے سرٹیفکیٹ کو گھر میں حفاظت سے رکھنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ کمرے کی الماری محفوظ تصور کرتے ہوئےکھولی، تو وہاں سرکاری فائلز کے علاوہ وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات و رسائل میں شایع شدہ اور غیر مطبوعہ تحریروں کی فائلز سمیت ہائوس ٹیکس، یوٹیلٹی بلز وغیرہ کی فائلز ترتیب سے الگ الگ رکھی ہوئی تھیں۔ 

ان فائلز کے درمیان سرٹیفکیٹ رکھنے کا مطلب اسے اندھے کنویں میں دفن کرنے کےمترادف تھا، لہٰذا وہاں رکھنے کے بجائے کپڑوں کی الماری کھولی تو سامنے ہی کراچی سے شایع ہونے والے کسی رسالے کا خصوصی نمبر رکھا تھا، لہٰذا اُس وقت اس ضخیم رسالے ہی کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس کے درمیان میں سرٹیفکیٹ رکھ دیا اور پھر باقاعدگی سے ماہانہ منافع حاصل کرتا رہا۔ کچھ عرصے بعد ایک روز آفس میں بیٹھا کام میں مشغول تھا کہ قومی بچت آفس سے پیغام ملا ’’آپ کے سرٹیفکیٹ کی مدّت پوری ہوگئی ہے، اسے بدلواکر نیا بنوالیں۔‘‘ شام کو گھر پہنچ کر سرٹیفکیٹ نکالنے کے لیے الماری کھولی، تو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ سرٹیفکیٹ کہاں رکھا ہے۔ لاکھ ذہن پر زور دیا، لیکن قطعاً یاد نہیں آرہا تھا۔ تین دن تک دیوانہ وار ہر جگہ تلاش کرتا رہا۔ الماریوں کو کئی بار چھان مارا، رضائیوں کے غلاف بھی اتار دیئے، لیکن ناکامی ہی مقدر ٹھہری، مسلسل تلاش کے باوجود کہیں سراغ نہیں مل رہا تھا۔

اُن دنوں محلّے کی ایک دکان پر شام کو ایک آدھ گھنٹہ بیٹھنا میرا معمول تھا کہ دکان کے مالک شہزاد اور اس کے بھائی اعجاز سے میری اچھی علیک سلیک تھی۔ بہرحال، ہوا کچھ یوں کہ اُس ضخیم رسالے کے بیچ میں سرٹیفکیٹ رکھنےکے ایک ہفتے بعد ہی الماری میں کپڑے سیٹ کرتے ہوئے اس رسالے پر نظر پڑی، تو اخبار کی ردی کے ساتھ وہ رسالہ بھی شہزاد کی دکان پر دے آیا۔ اُسی وقت ان کے والد ریاض صاحب بھی اتفاقاً دکان پر آگئے، ضخیم رسالے پر اُن کی نظر پڑی تو، پڑھنے کے لیے گھر لے گئے۔ واللہ عالم، انہوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا یا نہیں، لیکن چند ہفتے بعد سرٹیفکیٹ کی گم شدگی کے باعث پریشانی اور اُداسی کے عالم میں اُن کی دکان پر بیٹھا تھا کہ شہزاد کے والد بھی دکان میں آگئے۔انہوں نےشاید سرٹیفکیٹ سنبھال کر رکھ لیا تھا۔ 

مجھے مغموم دیکھ کر پریشانی کی وجہ پوچھی، تو مَیں نے ساری کہانی کہہ سنائی۔ انہوں نے کہا۔ ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں حضرت! جو ہُوا، سو ہُوا۔ یوں اُداس و پریشان ہونے سے کیا ہوگا؟‘‘ مَیں نے بے بسی سے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تو پھر کیا کروں میں؟‘‘ انہوں نے زیرِلب مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آنکھیں بند کرکے ہاتھ اٹھائیں۔ دُعا کریں، میں بھی دُعا کرتا ہوں، اللہ کرم کرے گا۔ حق حلال کا مال ہے، تو ضرور ملے گا۔‘‘ اُن کی ہدایت کے مطابق میں نے آنکھیں بند کرکے دُعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے، چند ثانیے بعد انہوں نے آنکھیں کھولنے کو کہا اور جب میں نے آنکھیں کھولیں، تو ہاتھوں میں سرٹیفکیٹ دھرا تھا۔ 

یہ دیکھتے ہی میرے دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی، گم شدہ لاکھوں روپے مالیت کا سرٹیفکیٹ، جس کی تلاش میں ہفتوں سے در بدر ہورہا تھا، یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر میرا سارا جسم سُن ہوگیا۔ چند لمحے بعد بمشکل بولا۔ ’’صاحب! یہ کیسے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’یاد کیجیے، اخبار کی ردّی کے ساتھ آپ یہ رسالہ بھی لائے تھے،جسے میں اپنے گھر لے گیا، رسالے کے مطالعے کے دوران ہی مجھے یہ سرٹیفکیٹ ملا۔ ذرا خیال فرمائیں، دکان میں صفائی ستھرائی کرنے والے لڑکے کے ہاتھ اگر یہ رسالہ لگتا، تو وہ بغیر کھولے ہی دیگر ردّی کے ساتھ فروخت کردیتا، شُکر کریں، یہ مجھے مل گیا۔ ایسی چیزیں اس طرح اِدھر اُدھر لاپروائی سے نہ رکھا کریں، صندوق میں رکھا کریں۔‘‘

سرٹیفکیٹ کی بازیابی کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا اور اگلے ہی روز انہیں مرکزِ بچت جاکر فروخت کرکے رقم پینشن اسکیم میں لگادی۔ (پروفیسر معین الحق، کوئٹہ)