• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالد محمود درّانی

وہ مئی1984ءکی ایک رُوپہلی دوپہر تھی،جب میں بھارت میں ممبئی کے علاقے باندرہ کے ایک محلّے، پالی ہل میں لیجنڈ اداکار، دلیپ کمار کی رہائش گاہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ کافی دیر تک اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کس طرح اُن کے مکان کا پتا معلوم کروں کہ ایک معمر پارسی جوڑا ہاتھ میں چھتری لیے آتا دکھائی دیا۔ وہ میرے قریب سے گزرنے لگے، تو میں نے روک کر نہایت ادب سے پوچھا۔’’کیا آپ لوگ یہیں رہتے ہیں؟‘‘ بجائے جواب دینے کے بوڑھے پارسی نے الٹا مجھ سے سوال پوچھ لیا، ’’کیا یوسف بھائی کا پتا کرنے کا ہے؟‘‘ 

مَیں نے غیر یقینی سے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، تو انہوں نے دُور ایک مکان کی طرف اشارہ کیا اور آگے بڑھ گئے۔ جب مَیں مکان کے قریب پہنچا، تو وہاں ایک ہجوم تھا۔ وہ ایک پرانا بنگلا تھا، جو سرسبز جھاڑیوں اور گھنے درختوں میں گِھرا ہوا تھا۔ لوہے کا زنگ آلود پھاٹک لوگوں کو اندر جانے سے روکے ہوئے تھا۔ ہر کوئی دلیپ کمار سے ملنے کا متمنّی نظر آرہا تھا۔ چوکیدار ہر ایک سے یہی کہہ رہا تھا کہ ’’صاحب گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ میں ہجوم کو چیرتا ہوا گیٹ تک پہنچ گیا اور چوکیدار سے درخواست کی کہ ’’مَیں بہت دُور پاکستان سے آیا ہوں، براہِ مہربانی مجھے اندر جانے دیا جائے۔‘‘ 

مگر اس کا ایک ہی جواب تھا کہ ’’صاحب گھر پر نہیں ہیں اور اُن کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔‘‘ مَیں کافی دیر تک وہاں موجود رہا، جب یقین ہوچلا کہ اب اُن سے ملنا ممکن نہیں، تو بالآخر مایوس لوٹ گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مَیں دلیپ کمار کا بہت بڑا مدّاح تھا اور اُن سے ملنے کی آرزو لے کر وہاں پہنچا تھا، مگر اُن سے ملاقات کی کوئی صُورت نہ نکلنے کے سبب بے سود ہوگیا۔ اتنا طویل سفر طے کرکے ممبئی پہنچنے کا میرا مقصد ہی فوت ہوچکا تھا۔ اس قدر مایوسی طاری ہوئی کہ اُن کے بارے میں میرے خیالات تک بدل گئے۔ بہرحال، دلیپ کمار سے تو نہ مل سکا، لیکن، اس دوران کئی فلمی ستاروں سے بڑی آسانی سے ملاقات ہوگئی۔

اُن ہی دنوں ایک فلم کی ڈبنگ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ وہاں میری ملاقات ڈبنگ کرنے والے نوجوان، مسڑ تیواری سے ہوئی، جو انتہائی ملن سار اور خوش اخلاق تھے۔ میرے مختصر تعارف اور ممبئی آنے کی رُوداد سُننے کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کن کن فلمی ستاروں سے ملنا چاہتے ہیں؟ تو مَیں نے فوراً دلیپ کمار سے ملاقات کی دیرینہ خواہش کا اظہارکردیا۔ یہ سُن کر وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے، پھر مُسکرا کر کہا، ’’یوسف بھائی کل شام اپنی فلم ’’دنیا‘‘ کی ڈبنگ کے لیے یہاں تشریف لارہے ہیں اور اتفاق سے اس کی ڈبنگ بھی مَیں ہی کروں گا۔ اگر آپ اُن سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں، تو کل تشریف لے آئیں۔‘‘ اندھا کیا چاہے، دوآنکھیں، مَیں فوراً راضی ہوگیا اور کہا، ’’یہ آپ کا میرے اوپر احسانِ عظیم ہوگا،جسے میں زندگی بھر یاد رکھوں گا۔‘‘

دوسرے دن میں سرِشام ہی اسٹوڈیو پہنچ چکا تھا۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد شور ہوا کہ یوسف بھائی آگئے، میری دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں کہ اب اُس ہستی سے ملاقات ہوگی، جس کے لیے میں ممبئی آیا تھا۔ یہاں بھی اُن کے استقبال کے لیے لوگ قطار درقطار کھڑے تھے۔ سیاہ رنگ کی گاڑی بیرونی گیٹ اندر آکر رُکی اور چند ہی لمحے بعد یوسف بھائی نے گاڑی سے اترتے ہی دونوں ہاتھ جوڑ لیے اور سلام کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ اُن کی تمام فلمیں میرے ذہن کی اسکرین پر تیزی سے چلنے لگیں۔ 

میرے قریب سے آن فلم کا جئے، انداز کا دلیپ کمار، دیدار کا شیامو، ترانہ کا موتی، اورفلم میلے کا موہن گزر رہا تھا۔ سیاہ پتلون، سفید شرٹ اور چپلوں میں وہ بہت ہی سادہ اور حسین لگ رہے تھے۔ چلتے ہوئے جب میرے قریب سے گزرنے لگے، تو میں نے پُرتپاک انداز سے ’’السّلام علیکم‘‘ کہا، جواباً اُنھوں نے بھی ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر مجھ پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔ شاید اس لیے کہ وہاں سلام کرنے والا واحد مَیں ہی تھا۔ مجھ سے دوقدم پرہی تیواری صاحب بھی کھڑے تھے۔ 

تیواری صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً ہی میرا تعارف کروایا ’’یوسف بھائی! یہ خالد صاحب ہیں، آپ سے ناراض ہیں۔‘‘ وہ فوراً میری طرف مڑے اور تیواری صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’’یہ خاص طور پر آپ سے ملنے کے لیے طویل سفر کرکے یہاں پہنچے، مگر انھیں آپ کے گھر سے لوٹا دیا گیا، آپ سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔‘‘ انھوں نے یہ سُنا تو بڑی محبّت سے میرے کندھے پرہاتھ رکھا اور بولے، ’’اب تو ہم پوری رات ایک ساتھ ہوں گے، تفصیلی بات ہوگی۔‘‘

تھوڑی ہی دیر بعد فلم کی ڈبنگ کا پہلا مرحلہ ختم ہوا، تو وہ میرے ساتھ آکر صوفے پربراجمان ہوگئے۔ میراہاتھ اپنے ملائم ہاتھوں میں دبالیا اور گویا ہوئے۔ ’’جی خالدبھائی! آپ مجھ سے کیوں ناراض ہوگئے؟‘‘ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ جس شخص کی ایک دنیا مدّاح ہے، وہ محبّت سے میراہاتھ تھامے، میرے پہلو میں بیٹھا مجھ سے استفسار کررہا ہے کہ مَیں اس سے کیوں ناراض ہوں۔ حالاں کہ میری تو حیثیت ہی کچھ نہیں تھی، اُس عظیم فن کار کے سامنے۔ میرے علاوہ تقریباً پینتالیس پچاس دوسرے افراد بھی فلور پر موجود تھے، لیکن شاید پوری محفل میں، مَیں واحد پاکستانی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے اُن کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔ 

اس دوران جن جن فن کاروں کی آواز ڈب کرنی مقصود تھی، اُنہیں بلایا جارہا تھا۔ جب یوسف بھائی کا نمبر آتا، تو وہ مجھے چھوڑ کر روسٹرم پرپہنچ جاتے اور فارغ ہوتے ہی دوبارہ میرے پاس آکر صوفے پر بیٹھ جاتے۔ مَیں نے نوٹ کیا کہ دوسرے فن کاروں کو کافی دشواری سے گزرنا پڑرہا تھا، وہ بار بار ’’کٹ‘‘، ’’اسٹارٹ‘‘ اور پھر’’اوکے‘‘ کے مراحل سے گزررہے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں لکھے ہوئے ڈائیلاگز کی پرچیاں تھیں۔ جب پردہ سیمیں پراُن کی پرچھائیں ابھرتی، جس کے صرف ہونٹ تھرتھرارہے ہوتے (بغیر آواز کے) فن کاروں کو بڑی ہوشیاری سے اُن تھرتھراتے ہونٹوں کو اپنی آواز دینی ہوتی تھی۔ 

اگر ہونٹوں کی جنبش اور آواز میں مطابقت نہ ہوتی تو’’کٹ‘‘ کی آواز آتی اور فن کار کو دوبارہ اُس عمل سے گزرنا پڑتا۔ گویا یہ عمل خاصا دشوار گزار تھا۔ مَیں حیران تھا کہ یوسف بھائی اپنے کام میں انتہائی مشّاق تھے، جب کہ اُن کے ہاتھ میں کوئی پرچی وغیرہ بھی نہیں تھی۔ مَیں اُن کی ذہانت کا معترف ہوگیا۔ وہ صرف روسٹرم پرکھڑے ہوتے، پردے پر اپنے خاموش تھرتھراتے ہونٹ غور سے دیکھتے اور اُسے اپنی آواز دے دیتے۔ ’’اوکے‘‘ کی صدا بلند ہوتے ہی دوبارہ واپس آکر مجھ سے محوِ گفتگو ہوجاتے۔ اُس رات میری اُن سے لگ بھگ سات گھنٹے گفتگو رہی، جو میرے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔ اُن سات گھنٹوں میں مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوتی رہی۔ 

مجھے قطعی یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا مخاطب کون ہے۔ وہ میری باتوں کو بڑے غور اور توجّہ سے سُن رہے تھے۔ میری خواہش تھی کہ مَیں اُن سے فلم کے موضوع پرہی بات کروں۔ وہ شُستہ اردو میں پاکستان کے بارے میں بڑی دل چسپی سے اظہارِ خیال کررہے تھے۔ جب میں نے اُنہیں بتایا کہ پشاور میں، مَیں نے اُن کا گھر دیکھا ہے، تو اُن کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی، جذباتی سے ہوگئے، بولے ’’میرا گھر کیسا ہے؟‘‘ میں نے بتایا کہ ’’سُرخ اینٹوں کا بنا ہوا قدیم طرز کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی بے اختیار ہنس پڑے، پھریک دَم سنجیدگی سے کہنے لگے ’’خالد بھائی! قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، مَیں کتنا بدنصیب ہوں کہ اپنی جنم بھومی بھی اب تک نہیں دیکھ سکا۔‘‘

ڈبنگ اسٹاف کے افراد بڑے حیرانی سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے گفتگو کا موضوع فلم کی طرف موڑتے ہوئے کہا،’’پچھلے ہفتے میں نے جے پور میں آپ کی فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ دیکھی۔ حیران ہوکرپوچھنے لگے۔’’فلم کو بنے ہوئے تقریباً 25 سال ہوگئے ہیں اور آپ نے اب دیکھی ہے؟‘‘ مَیں نے کہا ’’پاکستان میں آپ کی فلمیں نہیں آتیں۔‘‘ پھر میں نے فلم’’دیدار‘‘ کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور ان کے نابینا کیریکٹر کی اداکاری کی تعریف کرڈالی کہ ’’یقین جانیں، یہ فلم مجھے اتنی پسند آئی کہ ’’پابندیوں‘‘ کے باوجود مَیں نے34بار دیکھی۔‘‘ یوسف بھائی کو ایک دَم جھٹکا سالگا۔ ’’چونتیس بار دیکھی اور ہضم بھی کرلی۔‘‘ 

چند ثانیے حیرت سے دیکھتے رہے، پھر کہا ’’آپ نے تو دیدار فلم یقیناً دیکھی ہوگی، لیکن میں دیدار سمیت اپنی متعدّد فلمیں اب تک نہیں دیکھ پایا۔‘‘ مَیں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا تو گویا ہوئے،’’ فلم کی شوٹنگ کی خواری کا آپ کو اندازہ نہیں۔ شوٹنگ کے بعد ’’ڈبنگ‘‘ کا مرحلہ آتا ہے، جس میں ہم اِس وقت بیٹھے ہیں۔ اس ڈبنگ میں ہماری پوری رات کالی ہوگئی ہے۔ جب آپ گھر جاکر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر میری یہ فلم ملاحظہ فرمائیں گے، تو پورے گیارہ یابارہ منٹ میں یہ تمام سین آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔ مجھے ایمان داری سے بتائیں، ان دومراحل سے گزرنے کے بعد آدمی اس قابل رہ جاتا ہے کہ اپنی فلم خود دیکھ سکے؟‘‘یوسف بھائی نے واقعی مجھے لاجواب کردیا تھا۔