• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک تو بحیثیت قوم ہمیں سنی سنائی باتوں ، فرضی کارناموں ، جعلی تاریخ اور جھوٹ سے ویسے ہی بڑی رغبت ہے ،اوپر سے یہ کم بخت دروغ پبلشرز والے بھی اس سلیقے سے غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے دل کی صدا معلوم ہوتی ہے ۔ ہم لوگ دو گھنٹے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر مدار ی کی فریب کاریوں اور بکواس سے تو لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن سچ کا ایک جملہ بھی سن لیں تو بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رہتا۔ یہاں صدیوں سے خود فریبی کا یہ چلن رائج ہے کہ نہ کبھی جھوٹی داستانیں سنانے والے تھکے اور نہ ہی سننے والوں کو اونگھ آئی ۔ انہی دلچسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ’’چوری شدہ سوالنامہ‘‘ کے علاوہ بھی دروغ پبلشرز کی جنرل گائیڈز سے مختلف سوالات اپنے ان کالموں میں شامل کرتے رہتے ہیں ۔ آج ان کی چند مزید غلط بیانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔
سوال:’’رِٹ آف گورنمنٹ‘‘ اور ’’رَٹ آف گورنمنٹ‘‘ میں کیا فرق ہے ؟
جواب: ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ مت کھائیں ۔ نام کی مماثلت کے باوجود یہ دونوں بالکل مختلف اور متضاد چیزیں ہیں ۔ ’’رِٹ آف گورنمنٹ‘‘ کو حکومتی یا ریاستی رِٹ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب آسان فہم میں سمجھانے کے لئے ہم ایک تاریخی واقعہ کا سہارا لیں گے ۔ہندوستان میں انگریز سرکار کا دور ہے ۔ ایک تحصیلدار کسی گائوں کے سرکاری دورے پر جاتا ہے ، جہاں اراضی کے کسی تنازع کا ایک بد معاش اور با اثر فریق میرٹ پر اپنے خلاف فیصلہ ہوتے دیکھ کر تحصیلدار کو قتل کردیتا ہے ۔ اس واقعہ کی بازگشت برطانیہ کے اعلیٰ ایوانوں تک سنائی دیتی ہے ۔ سرکاراپنی وسیع و عریض راجدھانی ( جس کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا ) کے ایک دور دراز گائوں میں بھی اپنے ایک ادنیٰ افسر کے قتل کو اتنی سنجیدگی سے لیتی ہے کہ وہ اس واقعہ کو تاج برطانیہ پر حملہ قرار دیتی ہے اور قاتلوں کو ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والوں سے تعبیر کرتی ہے ۔ پس بغیر کوئی بڑھک مارے فوری طور پر ملزمان گرفتار ہوتے ہیں ۔قواعد سے ہٹ کر انگریز سیشن جج صاحب اسی گائوں میں جا کر عدالت لگاتے ہیں اور فوری سماعت کے بعد بد معاش گروپ کے سات پردھانوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے …پھر اسی مقام پر جہاں سرکاری ملازم قتل ہوا، پھانسی گیٹ تیار ہوتا ہے اورہزاروں لوگوں کے سامنے ساتوں مجرم سرِ عام لٹکا دیئے جاتے ہیں ۔ عزیز طالب علمو! دنیا میں اس کو ’’رِٹ آف گورنمنٹ‘‘یا ’’رِٹ آف اسٹیٹ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
جہاں تک ’’رَٹ آف گورنمنٹ‘‘ کا تعلق ہے تو یہ وہ ـ’’رَٹ‘‘ ہے جو کسی ملک کے اکابرین حکومت طوطے کی طرح لگائے رکھتے ہیں،مثلاً ’’عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے ‘‘ ’’ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے ‘‘ ’’کسی کو امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دینگے ‘‘ ’’ملزمان کو عبرت ناک سزائیں دیں گے ‘‘ یا جیسے ’’ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے ‘‘ ’’لوڈ شیڈنگ کو ختم کر کے دم لیں گے ‘‘ ’’ تیل اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘ ’’عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ تاہم آپ تو جانتے ہیں کہ چوری (مراد چُوری ہے ، چوری نہیں) کھانے والے طوطے اپنے اپنے پنجروں میں بیٹھ کر فقط ’’رَٹ‘‘ ہی لگا سکتے ہیں ، سو وہ اپنے اس فرض منصبی سے کبھی غافل نہیں ہوتے ۔ پس ’’رِٹ آف گورنمنٹ‘‘ اور ’’رَٹ آف گورنمنٹ‘‘ میں یہی فرق ہے ۔
سوال: ٹائوٹ کی معاشرے میں کیا اہمیت ہے ؟ نیز ٹائوٹوں کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات تجویز کریں ۔
جواب: ٹائوٹ ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تھانہ کچہری سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک گلشن کا سارا کاروبار ہی ٹائوٹوں کے سہارے چل رہا ہے ۔ اس برگزیدہ معاشرے میں ٹائوٹ کی بہت عزت ہے ، بلکہ عزت ہے ہی ٹائوٹوں کی ۔ ہر پبلک ڈیلنگ والے محکمے کے اہلکاروں اور افسران ، عوامی نمائندوں اور اعلیٰ حکام کے اپنے اپنے ٹائوٹ ہوتے ہیں ، جو سائلوں ان اور ’’صاحب‘‘ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ٹائوٹ ہر دو فریقین کے درمیان ڈیل کرا کے اپنا کمیشن وصول کرتا ہے اور سائل اپنے کام’’ باعزت طریقے ‘‘سے نکلوا کر اسے دعائیں دیتے ہیں ،ورنہ تو ان کی درخواستیں سرکاری دفتروں میں میز در میز رسوا ہی ہوتی رہتی ہیں ، حتیٰ کہ وہ اگلے جہان سدھار جاتے ہیں ۔ ٹائوٹ نہایت ہی منکسرالمزاج ہوتا ہے اور کبھی بھی اپنے آپ کو ٹائوٹ نہیں کہتا بلکہ خود کو ’’صاحب‘‘ کا خادم ، بھائی یا دوست کہہ کر متعارف کراتا ہے ۔ دکھی انسانیت کے لئے ٹائوٹ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ اسلام کے اس مضبوط قلعے میں یو ٹیوب جیسی فحاشیوں کا تو داخلہ ممکن نہیں ، البتہ انصاف کے متلاشیوں کے لئے ٹائوٹ کی ایک عظیم خدمت اب ضرب المثل بن چکی ہے کہ ’’وکیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘اسی طرح جب کوئی ’’دکھی انسانیت‘‘سرکاری ہسپتالوں میں بے یارومددگار تڑپ رہی ہوتی ہے تو ٹائوٹ اس کے لواحقین سے آ کر ہمدردی جتاتا ہے اورسرکاری اسپتالوں کی بد انتظامی اور نقائص پر لیکچر دینے کے بعد انہیں باوقار طریقے سے کسی مخصوص پرائیویٹ کلینک پر لے جاتا ہے ، جہاں دکھی انسانیت اور ٹائوٹ کے درد کا درماں موجود ہوتا ہے ۔ اگر ذہن کا کینوس ذرا وسیع کیا جائے تو سرکاری بیرونی سودوں میں بھی ٹائوٹ کا کردار مسلمہ نظر آتا ہے ،تاہم یہ وی آئی پی ٹائوٹ کہلاتے ہیں ۔ پس مندرجہ بالا مختصر الفاظ سے معاشرے میں ٹائوٹ کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور اس کے سکہ رائج الوقت ہونے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ تاہم پھر بھی اگر کسی کو ٹائوٹ کی اہمیت سے انکار ہے تو وہ بغیر ٹائوٹ ایک معمولی ڈومیسائل یا پاسپورٹ بنوا کر دکھا دے اور ادارہ دروغ پبلشرز سے مبلغ دس ہزار روپے نقد انعام وصول کرلے ۔ تاہم مروجہ اخلاقی اقدار کا تقاضا ہے کہ ادارہ سے بذریعہ مستند ٹائوٹ رجوع کیا جائے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو ہمیں قانونی طور پر ٹائوٹوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگاتاکہ وہ بلا جھجک و شرم و حیا ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ جب ملک کا انتظام و انصرام ٹائوٹوں ہی کا مرہونِ منت ہے تو پھر انہیں پس پردہ رکھنے میں آخر کون سی مصلحت کار فرما ہے ؟ وقت آ گیا ہے کہ حکومت ٹائوٹوں کی فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات اٹھائے ۔اس سلسلے میں ریاست کے تمام ستونوں کی سرکردہ شخصیات پر مشتمل کمیشن بنانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے، جو ٹائوٹوں کی سرکاری سطح پر حیثیت تسلیم کرنے کے علاوہ میڈیکل اور پنشن جیسی دیگر سفارشات پیش کرے ۔ حسن ظن رکھنا چاہئے کہ کمیشن ضلعی ، صوبائی اور مرکزی سطح پر ٹائوٹوں کی ایسوسی ایشنز بنانے اور انہیں رجسٹرڈ کرنے کی سفارشات بھی پیش کرے گاتاکہ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے ۔ہر لحاظ سے با اختیار ’’چیئرمین آل پاکستان ٹائوٹ ایسوسی ایشن ‘‘ کا انتخاب بھی ضروری ہے ، جسے گریڈ بائیس کی مراعات حاصل ہوں ۔ سفارشات ہذا کی روشنی میں وزارت قانون جلد از جلد قانون کا بل تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کرے ۔ ادارہ دروغ پبلشرز کے مالک نے شرط لگائی ہے کہ اگر بل کی مخالفت میں ایک ووٹ بھی آیا تو وہ اپنا یہ ادارہ بند کر کے دوبارہ پرانا دھندہ یعنی ٹی وی پر خبرنامہ پڑھنا شروع کر دیں گے ۔
سوال: حالیہ اے پی سی اعلامیئے کی روشنی میں آپ ملک کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب: اے پی سی کے اعلامیے کی روشنی میں ہم طلباء و طالبات ملک وقوم کے مستقبل کو اپنی سکس بائی سکس 6x6)) نظر سے دیکھ رہے ہیں اور حالیہ اپر دیر اور پشاور کے سانحات کے بعد تو یہ مستقبل ہمیں بالکل واضح نظر آ رہا ہے ۔ تاہم اس کا کیا کیا جائے کہ ارباب اختیار نے ملک کا مستقبل دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹی سے ان کی چاند دیکھنے والی دوربینیں ادھار مانگ رکھی ہیں، جن سے دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہاتھی بھی نظر نہیں آتا۔
تازہ ترین