• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے سب سے زیادہ متاثر دو صوبے ہیں یعنی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان ۔ڈیرہ جیل طالبان نے حملہ کر کے توڑ دی اور 253قیدی فرار ہو گئے۔ یہ خبریں ہیں کہ جیل 14ساتھیوں کو فرار کرانے کیلئے توڑی گئی تھی۔ جیل کا ٹوٹنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، اس سے حکومت کی نااہلی اور کمزوری کا اندازہ ہوتا ہے۔جنوبی وزیرستان اور سوات میں فوجی آپریشنوں نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی وہاں آئے دن فوجی چوکیوں اور فوجی قافلوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی رٹ کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جنوبی وزیر ستان اور شمالی وزیر ستان کا تو کہنا ہی کیا ہے۔
ابھی چند دن پہلے ضمنی الیکشن ہوئے تھے وہاں خواتین کو بعض حلقوں میں ووٹ نہیں ڈالنے دیئے گئے ۔ ایک طرح سے انتہائی افسوسناک صورتحال تھی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کر سکی۔ سانپ نکل چکا ہے اور بیان بازی کے ذریعے مذمت کی جا رہی ہے یہ صورتحال الیکشن سے کئی دنوں پہلے پیدا ہوئی تھی۔ اب اگر الیکشن کمیشن خواتین کیلئے دوبارہ الیکشن بھی کرانے کا حکم دے تو اس کا نتیجہ شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔طالبان یوں تو پورے پاکستان میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں لیکن خیبر پختونخواہ میں ان کا اثر نفوذ بہت زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہاں کی سماجی اور معاشی ابتری ہے۔قبائلی روایات اور پسماندگی کا اس میں بڑا دخل ہے نہ وہ جدید کھلا معاشرہ ہے اور نہ وہاں اسلامی اقدار وروایات کا کلیتاً رچائو بسائو ہے۔
وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن اس کے مقاصد وہاں عوام کی روایتی زندگی کی ضد میں کسی بھی معاشرے میں سب کچھ ایکدم نہیں بدلا جا سکتا۔محبت سے صبر و تحمل سے برداشت دشمن کر اپنایا بنایا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی سوچ اور شدت کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔خیبر پختون خواہ میں وہاں کی اکثر آبادی قدامت پسندہے۔ وہ مذہبی رجحانات سے بہت زیادہ قریب ہیں ،یہی وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں وہاں کے عوام کو جس طرح چاہیں بہا کر لے جا سکتی ہیں ۔اس حقیقت کو شاید ہمارے سیاست دان نہیں سمجھتے ،مغربی تھنکر اس سے بخوبی واقف ہیں انہوں نے افغانستان میں مداخلت کی تو مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور جب انہوں نے یہ سمجھا کہ انہیں افغانستان سے نکلنا ہے تو انہوں نے مذہبی قوتوں کو کمزور کرنے کی سازش کی۔متحدہ مجلس عمل مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا اسے پارہ پارہ کرا دیا جس کی وجہ سے مذہبی و سیاسی سوچ کمزور ہو گئی اب ایک خلا پیدا ہو گیا اس خلا کو پر کرنے کیلئے تحریک انصاف آگے آئی انہیں کامیابی تو حاصل ہو گئی لیکن قوت عمل کی جو طاقت ماضی میں متحدہ مجلس عمل کو حاصل تھی وہ حاصل نہ ہو سکی اب تحریک انصاف کو طالبان کی مخالفت کا بھی سامنا ہے اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا بھی جس کا اثر و رسوخ کس طرح تحریک انصاف سے کم نہیں ہے۔ عمران خان اور مولانا فضل الرحمان دونوں کو مصالحانہ رویہ اختیار کرناچاہئے تھا ۔ہو سکتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا اتنا آسان نہ ہو اس لئے کہ نظریاتی خلیج اس کے درمیان حائل ہے۔ فریقین کو قریب لانے کا عمل کون کرے گا ،پہلے یہ طے ہو جانا چاہئے پاکستان کی سلامتی کا تقاضا یہ ہے اس میں دیر نہ کی جائے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان کے نزدیک نہ منور حسن معتبر رہے اور نہ مولانا فضل الرحمٰن یہ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان کے حالات پاکستان کی سلامتی کیلئے بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں پہلے تو یہ کہا جاتا رہا کہ بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں ہے۔ حالانکہ عوام اور اہل دانش کو نظر آ رہا تھا کہ ایسا ہے اب کیا ہوا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے اعتراف کر لیا کہ وہ علیحدگی پسندوں کو مذاکرات کیلئے راضی نہیں کر پا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے وہ بلوچستان لبریشن آرمی ہی کے مزاحمت کار کر رہے ہیں اگر بلوچستان میں امن قیام کرنا ہے تو ان کو میز پر لانا ہو گا۔بلوچستان کے سردار بے بس ہو چکے ہیں وہ ان کی بات نہیں سنیں گے۔
بلوچستان انتہائی حساس صوبہ ہے صرف اس لئے نہیں کہ وہاں معدنیات ہیں وہاں گیس ہے، وہاں قدرتی وسائل ہیں اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے ساحل کی فوجی اسٹرٹیجک اہمیت ہے۔ دو سری طرف مسقط کی بھی یہی صورت حال ہے ،بیرونی قوتیں کیوں بلوچستان میں دخیل ہو رہی ہیں ،وہاں کیوں وہ اپنے اثرات بڑھا رہی ہیں اس لئے کہ گوادر اور بندرگاہ بحرعرب اور بحرہند کے بحری راستوں کی کنجی ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی قوتیں اپنے مفاد میں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر طرح کی حمایت کر رہی ہیں لیکن جو لوگ بھی برسر اقتدار رہے ہیں، اور ہیں یہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آلہ کار کون ہیں،یہ مقامی لوگ ہیں ،یہ مایوسیوں اور محرومیوں کے شکار لوگ ہیں یہ اپنے ہی لوگ ہیں نا! پھر یہ اتنے ناراض کیوں ہیں، خدارا اس پر غور کریں اور ان کے حقوق ان کو دیں۔ان کے وسائل ان کے حوالے کریں ان کے خلاف ذہن نہ بنائیں۔ وہ بھی انسان ہیں ہماری طرح کے ان کو محبت سے اور حسن سلوک سے پاکستان سے محبت کرنے والا بنایا جا سکتا ہے۔اگر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے صوبے سے کوئی فارمولا درآمد کر کے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں تو یہ ان کی نادانی ہے ۔ پنجاب کا معاملہ کچھ اور ہے وہاں پنجابی طالبان سرگرم ہیں، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
تازہ ترین