• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دیپ جلا رکھا ہے
دھوپ چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
یہ تو پورا ہفتہ ہی سوگ کا تھا۔ اتوار کے روز پشاور کے چرچ میں اندوہناک سانحہ کا غم ابھی دل میں تازہ تھا۔ دل مغموم تھا۔ اداسی کے شعریاد آرہے تھے ناصر کاظمی کا مندرجہ بالا شعر بار بار زبان پر آرہا تھا کہ اتنے میں بلوچستان میں زلزلے کی دل ہلا دینے والی خبریں میڈیا پر نشر ہونے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مرنے والوں کی تعداد 400 تک جا پہنچی اور ابھی مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ چرچ کاواقعہ اس قدر افسوسناک ہے کہ اس پر جتنا بھی دکھ کیا جائے کم ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے لئے اسقدر شرمناک ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس پر جتنی بھی ندامت کی جائے کافی نہیں۔ ہم اپنے ملک میں مسلمان ہوتے ہوئے اقلیتوں کی حفاظت میں چند شرپسندوں کی وجہ سے ناکام ہو کر پوری دنیا میں رسوا ہو گئے۔ اس موقع پر ہمارے میڈیا نے بہت ہی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر جیو ٹی وی نے بار بار حضرت محمد کی حدیث مبارکہ جو عیسائیوں کی اور ان کی عبادت گاہوں سے متعلق ہے کو بار بار ٹی وی کی اسکرین پر لکھا ہوا بھی دکھایا اور نشر بھی کیا، ہمارے اس اقدام سے غمزدہ گھرانوں کے دکھ میں تو کوئی کمی نہیں آئی لیکن ہم نے اپنے ہموطنوں اور پوری دنیا کو بار بار یہ بتا دیا کہ اسلام اس قسم کی حرکتوں کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا کام کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ واقعہ خاص طور پر ایسے موقع پر پیش آیا جب ایک روز بعد ہی ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف اقوام متحدہ کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ امریکہ کرسچن آبادی کی اکثریت کاملک ہے اور ظاہر ہے انہیں بھی اس سانحے پر اتنا ہی دکھ ہوا ہو گا جتنا دکھ ہمیں ہوا ہے۔ یہ حرکت کرنے والوں نے ہمارے وفد کے لئے ایک پریشانی کا ساماں پیدا کیا تاکہ دیار غیر میں ہم نادم نادم سے رہیں اور لوگ حسب معمول پاکستان اور اسکے عوام کی طرف انگلیاں اٹھائیں یہ جس کسی کا بھی ایجنڈا تھا بہت سوچا سمجھا تھا اور ٹائمنگ بھی سیٹ تھے۔ میں یہ یہاں عرض کرتا چلوں کہ کرسچن لوگ ہمارے ملک میں بڑی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خاص طور پر ان کی خواتین نے خود کو نرسنگ کے مقدس پیشے سے رابطہ کر رکھا ہے یہ ہسپتالوں میں بیمار لوگوں کی تیمارداری کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اتنا گھنائونا سلوک کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا اورانہیں یقین دلایا کہ وہ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کے لئے آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں۔ ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آنجہانیوں کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ابھی یہ کالم لکھ ہی رہا تھا کہ خبر آئی کہ پھر ایک اور وکیل جناب نعمت اللہ رندھاوا پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس میں وہ جاں بحق ہو گئے ہیں اوران کے جوان سال بیٹے کو بھی گولیاں لگی ہیں جو ابھی زخمی ہے۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ یہاں فیض احمد فیض کے اشعار یاد آئے۔
تم ناحق شیشے چن چن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو
یادوں کے گریبانوں کے رفو پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک پختہ ادھیڑا، ایک سیا یوں عمر بسر کب ہوتی ہے
پھر دیکھئے ایک نیا واقعہ کب اورکیسے انداز میں ہوا۔ ایک طرف تو نواز شریف اورمن موہن کی ملاقات طے ہے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والوں نے کام دکھا دیا تاکہ یہ ملبہ بھی ہمارے اوپر گرا دیا جائے اور مجوزہ ملاقات کینسل یا منسوخ ہو جائے۔ مگر جواب نہیں من موہن کا۔ وہ کسی پریشر میں نہیں آئے اور کہا کہ ملاقات ضرور ہوگی ۔ یہ خوشی کی بات ہے اور اب امید ہے کہ ملاقات کے نتائج مثبت نکلیں گے اور دونوں سربراہان مملکت کوئی ایسی امن کی راہ تلاش کریں گے جس سے ڈالر کی قیمت مزید بڑھنے سے رک جائے اور دونوں ممالک کے درمیان حائل خلیج ختم ہو جائے۔ اس معاملے میں میاں نواز شریف کی پالیسی توبہت واضح ہے مگر انڈیا کی پالیسی کا پتہ نہیں کہ وہ کس حد تک ہمارے نزدیک آنا چاہتے ہیں اور من موہن کتنے بااختیار ہیں۔ ہندوستان میں الیکشن کا بازار گرم ہے اور اسی وجہ سے ہر لیڈر پاکستان مخالف بیانات دے کر اپنے نمبر بنانا چاہتا ہے۔ ایسے میں من موہن کی ملاقات ایک اہم قدم ہے اور اسکے دوررس نتائج نکلنے کی توقع ہے جولوگ تجارت سے وابستہ ہیں وہ تعلقات کی بحالی کے لئے خاص طور پر دعاگو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح تجارت میں فائدہ ہوگا ہندوستانی فلمیں کراچی کے مخصوص سینما گھروں میں باقاعدگی سے دکھائی جارہی ہیں اور خوب رش لے رہی ہیں اسکے برعکس ہندوستان میں پاکستانی فلموں کی کوئی پذیرائی نہیں ہے سوائے ایک دو پاکستانی فلموں کے بہرحال وینا ملک حسب سابق کامیاب ہے بلکہ اب تو انکا رینج دبئی تک بڑھ گیا ہے ۔پچھلے دنوں میں نے ان کی تصویریں اپنے ایک دوست عمر فاروق ظہور کے ساتھ دیکھیں گویا انکی مشق سخن جاری ہے مجھے نہیں معلوم کہ ان چیزوں کا ہماری خارجہ پالیسی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ بہرحال مجھے اپنی سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا انڈیا کادورہ یاد ہے اور جس طرح اسے پذیرائی میڈیا کی طرف سے ملی تھی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب اور من موہن کی ملاقات کے بعد ہندوستان کا الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا کس طرح اپنا ری ایکشن ظاہر کرتا ہے آئندہ تعلقات کادارومدار کافی حد تک میڈیا کے مثبت یامنفی پراپیگنڈے پر ہے۔ آخر میں منیر نیازی کے شعر پر کالم کا اختتام کرتا ہوں
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
تازہ ترین