• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منور ملک، صادق آباد

’’یہ تم صبح صبح کہاں چل دیں؟‘‘ بی جان نے حمنہ کو دستاویزات سنبھالے کہیں جانے کے لیے تیاردیکھا، توحیرانی سے پوچھا۔’’بی جان! میری ایک سہیلی اسکول میں ٹیچر ہے، اس نے بتایا تھا کہ اس کے اسکول میں ایک ٹیچر کی ضرورت ہے، تو بس اسی سلسلے میں جا رہی ہوں۔ آپ بھول گئیں، مَیں نےآپ سے کچھ دن پہلے بھی توذکر کیا تھا۔‘‘ وہ جانتی تھی، بی جان اکثر باتیں بھولنے لگی ہیں، سو وضاحت کردی۔’’ٹھیک ہے بیٹا! جائو، خیال رکھنا اور جلدی آجانا، ورنہ مَیں گھر میں اکیلے پریشان ہوتی رہوں گی۔‘‘ بی جان نے اسے تاکید کی۔ ’’جی بی جان! اللہ حافظ۔‘‘ حمنہ نے سعادت مندی سے سر ہلاتے ہوئے کہا اور نقاب اوڑھ کے باہر نکل گئی۔ دوسری جانب بی جان نے گیٹ بند کیا اور تخت پر آکر بیٹھ گئیں۔ بی جان کا سارا وقت حمنہ اور اس کے بچّوں کے لیے دُعا کرتے ہی گزرتا تھا۔

’’بی جان! ہمارے خاندان میں آج تک کسی عورت نے نوکری نہیں کی، تو آپ نے بھابھی کو نوکری کی اجازت کیسے دے دی؟ ہمارے بھائی کو اس دنیا سے گئے ابھی چھے ماہ نہیں گزرے اور بیوہ بھاوج نوکریاں کرتی پھر رہی ہے۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔‘‘ حمنہ کے جیٹھ غصّے میں اپنی ماں سے مخاطب تھے۔ ’’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ شوکت بھائی ، ارے کسی چیز کی ضرورت تھی، تو ہمیں کہہ دیتیں۔ بھائی کا انتقال ہوا ہے، پر ہم تو ابھی زندہ ہیں۔‘‘ دیور نے بھی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی اور بی جان خاموشی سے اپنے بیٹوں کی باتیں سُنتی رہیں۔ ’’پوچھنا تو درکنار، ہمیں بتانا تک گوارا نہیں کیا اس عورت نے۔ 

مَیں کہہ دیتا ہوں، اگر اس نے نوکری نہ چھوڑی، تو مَیں اس گھر سے اپنا تعلق ختم کرلوں گا۔‘‘ سب سے چھوٹے دیور نے بھی اپنا حصّہ ملانا ضروری سمجھا۔’’اب تم سب مجھے یہ بتائو کہ تم لوگوں کو اصل میں غصّہ ہے کس بات کا؟ تم سے پوچھے بغیر نوکری کی اجازت دے دی یا بھاوج نوکری کر رہی ہے اس بات کا؟‘‘ اب گرجنے کی باری بی جان کی تھی۔ ’’مَیں بتاتی ہوں، اصل میں تم سب کو غصّہ اس بات کا ہے کہ لوگوں نے تمہیں احساس دلایا ہوگا کہ بھائی کے مرنے کے بعد تم تینوں سے مل کر بھی اس کے تین بچّوں اور بھاوج کا خرچ نہیں اُٹھایا گیا۔ اب اگر وہ بے چاری اپنے بچّوں کے مستقبل کے لیے ماری ماری پھر رہی ہے، عزّت سے دو وقت کی روٹی کمارہی ہے، تو تم لوگوں سے یہ بھی برداشت نہیں ہورہا۔ کیا مَیں جانتی نہیں کہ تم لوگوں کے کان بھرنے میں تمہاری بیویوں کا ہاتھ ہے۔ 

کان کھول کر سن لو، مَیں ہرگز کسی کو اپنی بیٹی کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں دوں گی۔‘‘ کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی حمنہ، جو اپنے شوہر کے بھائیوں کی باتیں سُن کر مارے خوف کے کانپ رہی تھی، ساس کے کہے جملوں نے اس کے اندر گویا ہمّت و حوصلہ بھر دیااور وہ چادر درست کر کے کمرے میں آگئی۔’’بھائی جان! مَیں یہ جاب چھوڑنے کو تیار ہوں، لیکن میری ایک شرط ہے۔‘‘ اس نے خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے کہا، حالاں کہ دل سوکھے پتّے کی مانند لرز رہا تھا۔ ’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم…؟‘‘ بی جان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میری بچّی! تمہیں ان لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وقار کے جانے کے بعد انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ میرے بھائی کے بچّوں کا گزارہ کیسے ہوگا، بوڑھی ماں کے دوا دارو کا خرچہ کون اُٹھائے گا،بچّوں کی اسکول فیس کون ادا کرے گا۔ اللہ خوش رکھے تمہارے بھائی کو، جس نے اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔ 

مگر تم ان کی باتوں میں آکر اپنے بچّوں کا مستقبل دائو پر نہ لگاؤ میری بیٹی۔‘‘ بی جان نے اپنے بیٹوں کو آئینہ دکھانے کے ساتھ اسے بھی سمجھایا۔ لیکن وہ تینوں ذرا بھی شرمندہ نہ تھے، بلکہ لیاقت بھائی ڈھٹائی سے بولے ’’کیا شرط ہے آپ کی؟‘‘’’مَیں چاہتی ہوں کہ آپ تینوں آپس میں فیصلہ کرلیں کہ کون بچّوں کی فیس ادا کرے گا،کون بلز ادا کرے گا اور کون مہینے بھر کا راشن ڈلوایا کرے گا۔ مجھے گھر بیٹھے یہ سب ملے گا، تو مجھے بھی نوکری کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ وہ حتمی لہجے میں بولی، تو بی جان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’یہ تو نوکری نہ چھوڑنے والی بات ہو گئی۔ ہمارا اپنا بھی تو گھر بار ہے۔ ارے بی بی! منہگائی کے اس دَور میں اپنا گزارہ مشکل ہے، دوسروں کی کفالت کیسے کی جائے۔‘‘ 

شوکت بھائی بگڑ کر بولے۔’’ٹھیک ہے بیٹا! تمہیں ہماری فکر کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں ہمارے ہال پر چھوڑدو۔‘‘ بیٹوں کے رویّے نے بی جان کو خاصا مایوس کیا تھا۔پھر وہ کم زور سی حمنہ، جو اندھیرے سے بھی ڈر جاتی، بادلوں کے گرجنے سے سہم جاتی تھی، اپنے بچّوں کے لیے زمانے کے سامنے ڈَٹ گئی۔ صبح سویرے اُٹھنا، ناشتا تیار کرنا، بچّوں کو اسکول بھیج کر خود اسکول جانا، ساتھ ساتھ گھر کے کچھ کام بھی نمٹانا…دوپہر کا کھانا اکثر بی جان بنا لیا کرتی تھیں۔ وہ تھکی ہاری اسکول سے آتی اور پھر سے کام میں جُت جاتی، شام میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتی اور رات گئے تک نہ ختم ہونے والے لاتعداد چھوٹے چھوٹے کام اس کے منتظر رہتے۔ لیکن ہر ورکنگ لیڈی کی طرح وہ بھی اس تھکن زدہ زندگی کی عادی ہو چُکی تھی۔ 

اُسے یہ کام نہیں تھکاتے تھے، تھکاتے تھے، تو لوگوں کے رویّے، جو اسے صرف اس لیے مجرم گردانتے کہ وہ نوکری کر رہی ہے۔ شاید اس معاشرے کا یہی المیہ ہے کہ وہ عورت کو خودمختار نہیں دیکھ سکتا۔ حالاں کہ مجبوری میں گھر سے باہر نکل کر کمانے کی اجازت تو شریعت میں بھی ہے۔ حمنہ بھی مجبور تھی، لیکن لوگوں نے اس کا ساتھ دینے کی بجائے اس کی حوصلہ شکنی کی۔ ’’دیکھو تو، شوہر کو مرے سال بھی نہ گزرا اور یہ بی بی گھر میں ٹک کر نہ بیٹھ سکی، نوکری کرنے کی بھلا اسے کیا ضرورت پڑی۔دیور، جیٹھ کچھ نہ کچھ تو دیتے ہی ہوں گے۔‘‘ عورتیں اسے آتا جاتا دیکھتیں، تو باتیں بنانے سے باز نہ آتیں۔ باتوں کے تیر اسے چھلنی کردیتے۔ وہ کرچی کرچی بکھر جاتی، مگرپھر خود کو خود ہی سمیٹ لیتی کہ اُسے اپنے بچّوں کے لیے جو جینا تھا۔

’’حضرت حاجرہؑ نے جب ننّھے اسماعیلؑ کو پیاس سے بے حال دیکھا، تو بے آب و گیاہ وادی میں پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑیں۔ایک پریشان حال ماں کی سعی اُس رب کو اتنی پسند آئی کہ نہ صرف بیابان ریگستان میں اسماعیلؑ کی ایڑیوں تلے چشمہ نکال دیا، بلکہ صفا و مروہ کی سعی کو حج و عُمرے کا حصّہ بنا کر ماں کی اپنی اولاد کے لیے کوششوں کو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مثال بنا کر زندۂ جاوید کر دیا۔‘‘ وہ ذرا دیر سانس لینے کورُکا اور حاضرین کی طرف نگاہ دوڑائی، جو دَم سادھے اسے ہی سُن رہے تھے کہ وہ اُسے ہی تو سُننے آئے تھے۔ ’’میری ماں نے بھی ہمیشہ ہمارے لیے ایسی ہی سعی کی ۔

رزق کمانے کی سعی، ہمیں معاشرے کا باعزّت فرد بنانے کی سعی، ہمارا مستقبل تاب ناک کرنے کی سعی… انہوں نے طنز، طعنوں، باتوں کے زہر میں ڈوبے تمام تیر اپنی ذات پر جھیلے، پر ہم پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ یہاں تک کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتی رہیں، لیکن ہمیں کچھ نہ بتایا کہ کہیں ہماری تعلیم متاثر نہ ہوجائے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے میر مصطفیٰ وقار کی آواز بھرّا گئی۔ ’’میری ماں نے اپنے علاج کے لیے جو پیسا جمع کیا تھا، اُن سے میرایونی وَرسٹی میں داخلہ کروادیا اورمجھے خبر تک نہ ہونے دی۔ اُن کی گرتی صحت ہمارے لیے پریشان کُن تو تھی، لیکن ان کی اچانک وفات اس سے زیادہ بڑا صدمہ تھی۔ ہمارے سر سے سائبان چِھن گیا اور اس بھری دنیا میں ہم تین بہن بھائی اکیلے رہ گئے۔‘‘

اُس نے آنکھ میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے سلسلۂ کلام دوبارہ جوڑا۔ ’’اب ہم بہن بھائی ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ بڑی بہن کی تعلیم مکمل ہوئی تو انہیں گرلز کالج میں بطور لیکچرار جاب مل گئی۔ لوگوں نے ہمیں ضرور اکیلا چھوڑ دیا تھا، اللہ نے نہیں۔ ہمیشہ اس کی رحمت شاملِ حال رہی، جبھی تو آج ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا، ایک بیوہ ماں کا بیٹا، میر مصطفیٰ وقار آپ کے سامنے ایک کام یاب انسان کے رُوپ میں کھڑا ہے…‘‘ وہ ذرا خاموش ہوا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔’’اس شہر میں بنائی گئی بے شمار بلڈنگز میرا اثاثہ نہیں، بلکہ میرا اصل اثاثہ آپ جیسی بچیاں ہیں، جو ’’حمنہ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے اس ملک و قوم، اپنے خاندان کا نام روشن کریں گی۔

ہم اپنی ماں کے لیے ان کی زندگی میں کچھ نہیں کر سکے، لیکن ’’حمنہ اسکول اینڈ کالج‘‘ ’’حمنہ قرآن اکیڈمی‘‘ اور اب ’’حمنہ انسٹی ٹیوٹ‘‘ جو بچیوں کو سلائی کڑھائی سے لے کر کمپیوٹر کورسز تک تمام ہنر سے روشناس کروائے گا، میری ماں کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ میری ماں جیسی بے شمار باہمّت ’’حمنائیں‘‘ ان اداروں سے نکلیں گی۔‘‘ اس نے ایک عزم سے کہا تو ہال ایک مرتبہ پھر تالیوں سے گونج اٹھا اور وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ماں کی سعی کے بدلے ہی تو یہ ’’چشمہ‘‘ پُھوٹاتھا۔