شہناز حمید، راول پنڈی
’’کیا مصیبت ہے یار! پھر لائٹ چلی گئی۔ کیسا مُلک ہے ہمارا۔ کبھی بجلی نہیں، تو کبھی پانی۔ اور اگر قسمت سے یہ دونوں میسّر ہوں، تو پھر گیس غائب ہوجاتی ہے۔ زندگی عذاب ہو کر رہ گئی ہے۔ مسائل ہی مسائل ہیں اور سہولت نام کی نہیں۔ آرام و سُکون سب غارت ہو گیا ہے۔ ایسے ہوتے ہیں مُلک، ایسے چلتی ہیں حکومتیں۔ مزے تو ترقّی یافتہ مُمالک میں رہنے والے کے ہیں، جنہیں کسی بات کی ٹینشن ہی نہیں۔‘‘ بجلی کیا گئی، طاہر کو دِل کی بھڑاس نکالنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔
لگ رہا تھا کہ آج پورا دن وہ ہرایک کو پاکستان کی بُرائیاں ہی گنواتا رہے گا۔ ایک طاہر ہی کی بات نہیں، ہم میں سے اکثرافراد، خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، جہاں موقع ملتا ہے، مُلک کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ تو اپنی ذاتی خامیوں اور ناکامیوں کا ملبہ بھی دھرتی ماں پر ڈالنے سے نہیں چُوکتے۔
فکر و شعور سے نابلد ہم میں سے کئی لوگ تنقید کرنے سے قبل ان حقیقی پہلوؤں پر غور و فکرکی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ آج اگر ہمارا مُلک ترقّی کی دوڑ میں کئی ایسے مُمالک سے پیچھے رہ گیا ہے، جو ہمارے بعد معرضِ وجود میں آئے تو کیوں؟ ہم بحیثیت قوم ناکامی کی وجوہ اور اس کے تدارک کے حوالے سے سوچنا ضروری ہی نہیں سمجھتے، شاید اس لیے کہ حقائق بہت تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کمی ہمارے مُلک میں نہیں، ہم میں ہے۔ پاکستان کو قدرت نے بڑی فیّاضی سے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے، مگر افسوس کہ ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کر پا رہے۔
مانا کہ ابتدا ہی سے ہمیں ناسازگار، نامساعد حالات کا سامنا تھا،مگر پھر اَن تھک محنت ، نیک نیتی اور اللہ کی مدد سے صفرسے شروع ہونے والی مملکت کا پہیہ آہستہ آہستہ بہتری کی سمت چلنے لگا، لیکن بعدازاں بدنیتی و بدانتظامی کی ایسی ہوا چلی کہ حالات مسلسل ابتری کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اقتدار اور کرسی کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔
دولت اور حکومت کی حرص و ہوس نے مُلک کی بنیادوں کو کم زور اور کھوکھلا کرنا شروع کردیا۔ لاقانونیت عام ہوجائے، تو اس کا اثر عام آدمی تک بھی پہنچتا ہے۔ ان حالات میں ہر ادارہ رشوت اور کرپشن کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ سب پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی دھن سوار ہوگئی۔ اور آج ہم جن حالات سے دوچار ہیں، یہ سب اُسی بیج کا پھل ہے، جو کل ہم نے خود بویا تھا۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالیں، تو آج سرکاری محکموں کی ابتری و گراوٹ کی بڑی وجہ اقربا پروری اور وہاں سیاست کا بےجا عمل دخل ہے۔جس مُلک کی عدالتیں فوری انصاف مہیا نہ کر سکیں، جہاں مسیحائی کے دعوے دار ڈاکٹرز، نرسز اور محکمہ صحت کے ذمے داران سرکاری ادویہ کی خورد بُرد میں ملوّث ہوں، جہاں علم بانٹنے والے اساتذہ اور محکمۂ تعلیم کے ناخدا، تعلیم کو کاروبار بنادیں، جہاں تاجر اور صنعت کار ٹیکسز کی ادائی سے فرار کی راہیں ڈھونڈتے پھرتے ہوں اور جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر سیاست دان اپنی تجوریاں بَھرنے میں مصروف ہوں، ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی عام ہو اورحلال و حرام کی تمیز تک مٹ جائے، وہاں کسی بھی بہتری، تعمیر و ترقّی کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے۔
مگر…مُلک کو بُرا بھلا کہنے سے بگڑا ہوا نظام درست نہیں ہوگا۔ اب ہمیں حکومت اور اچھےحکم رانوں کے نہ ملنے کا رونا ورنے کے بجائے بحیثیت قوم یہ سوچنا ہوگاکہ مُلک کو ان حالات سے دوچار کرنے میں خود ہمارا اپنا کیا کردار ہے۔ یاد رکھیے، ہر وہ فرد جو مُلکی حالات سدھارنا چاہتا ہے، اُسے سب سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ بجلی، گیس چوری کرکے، ٹیکس بچا کر، رشوتوں سے اپنے ناجائز کام کروا کر اگر ہم مُلک کو بُرا بھلا کہتے ہیں، تو درحقیقت یہ ہم خود ہی کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک کرپٹ نظام کے خاتمے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندرسے کرپشن ختم کرنا ہوگی۔