• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہتھیاروں میں ٹیکنالوجی کا نیا دور ناقابل تصور تباہی لا سکتا ہے، ہنری کسنجر

کراچی( رفیق مانگٹ) امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاہے کہ ہم اب بالکل نئے دور میں جی رہے ہیں،ہتھیاروں میں ٹیکنالوجی کانیا دور ناقابل تصور تباہی لا سکتا ہے، پوٹن نےیوکرین جنگ کا غلط اندازہ لگایا، کبھی استعمال نہ ہونیوالے ہتھیار استعمال کئے تو غیر معمولی واقعہ ہوگا، یوکرین جنگ کے بعد روس کو یورپ کیساتھ اپنے تعلقات اور نیٹو سےمتعلق عمومی رویے کا جائزہ لینا ہو گا، چینی رہنما اس صورتحال میں پڑنے سے بچ رہے ہیں جس میں پیوٹن پھنس گئے۔

چین کے ساتھ نئی سرد جنگ کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ چین کے ساتھ تعلقات بھی خراب تھے اور روس بنیادی دشمن تھاہمارا نظریہ یہ تھا کہ جب آپ کے دو دشمن ہوں تو ان کے ساتھ بالکل یکساں سلوک کرنا غیر دانشمندانہ ہے،چین روس اتحاد ذاتی مفادات کے خلاف ہے،جو اب قائم ہو چکا ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ یہ مستقل رشتہ ہے۔

 روس اور چین کے درمیان مزید فاصلے کی حوصلہ افزائی کرنا امریکا کے جغرافیائی سیاسی مفاد میں ہوگا کے جواب میں ہنری کسنجر نے کہاکہ یوکرین کی جنگ ختم ہونے کے بعد عالمی سطح پر جغرافیائی سیاسی صورتحال میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی اور یہ فطری نہیں ہے کہ چین اور روس کے تمام ممکنہ مسائل پر یکساں مفادات ہوں، یوکرین کی جنگ کے بعدروس کو کم از کم یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات اور نیٹو کے بارے میں اپنے عمومی رویے کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

 روس، یوکرین جنگ اور چین پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مخصوص مسائل کے پیدا ہوتے ہی مختلف انداز اختیار کرنے کا آپشن کھلا ہے، آنے والے دور میں روس اور چین کو اکٹھا نہیں ہونا چاہیے، ٹیکنالوجی کے ارتقاء، ہتھیاروں سے بے پناہ تباہی کے پیش نظر اسے اپنے رویوں سے پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ 

دو جوہری ہتھیاروں سے لیس سپر پاورز کے درمیان اسٹینڈ آف پرجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اب ہمیں ایسی ٹیکنالوجیز کا سامنا ہے جوتباہی پیدا کر سکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور موجودہ صورتحال کا عجیب پہلو یہ ہے کہ دونوں طرف ہتھیاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہر سال ان میں اضافہ ہو رہا ہےلیکن بین الاقوامی سطح پر اس بارے میں تقریباً کوئی بحث نہیں ہوئی کہ اگر ہتھیاروں کو حقیقت میں استعمال کیا گیا تو کیا ہوگا۔

 میری اپیل عام طور پر، آپ جس طرف بھی ہوں، یہ سمجھ لیں کہ ہم اب بالکل نئے دور میں جی رہے ہیں اور ہم اس پہلو کو نظر انداز کرنے سے دور ہو گئے ہیں لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی دنیا بھر میں پھیل رہی ہے، جیسا کہ یہ فطری طور پر ہے، سفارت کاری اور جنگ کو ایک مختلف مواد کی ضرورت ہوگی اور یہ ایک چیلنج ہوگا۔ 

پیوٹن نے جس صورتحال کا سامنا کیا اس کا غلط اندازہ لگایا جب تصفیہ کا وقت آئے گا تو سب کو اس بات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے، واضح سوال یہ ہے کہ یہ کشمکش کب تک جاری رہے گی اور مزید بڑھنے کی گنجائش کتنی ہے؟ جو ہتھیار روس کے وجود کے 70سال میں کبھی استعمال نہیں ہوئےاگر اس لائن کو عبور کیا جاتا ہے تو یہ ایک غیر معمولی اہم واقعہ ہوگا۔ 

چین اس سے کیا سبق حاصل کر رہا ہے؟ کے جواب میں انہوں نے کہا مجھے شبہ ہوگا کہ اب کوئی بھی چینی رہنما اس بات پر غور کر رہا ہو گا کہ کس طرح اس صورتحال میں پڑنے سے بچنا ہے جس میں پیوٹن خود پھنس گئے ہیں اور کس طرح ایسی پوزیشن میں رہنا ہے جہاں کسی بھی بحران میں جو پیدا ہو سکتا ہے، ان کا بڑا حصہ نہیں ہو گا، دنیا ان کے خلاف ہو جائے گی۔

اہم خبریں سے مزید