• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزِ آشنائی
تنویرزمان خان:لندن
برطانیہ میں پیٹرول ، گیس اور بجلی (انرجی) کمپنیوں کے منافع جات میں اربوں پونڈ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سال کے پہلے کوارٹر میں ان کمپنیوں نے 22 بلین پونڈ سے زائد کا منافع کمایا ہے، جب مجھے پیٹرول کے ایک بڑے جائنٹ ایسو (Esso ) کے صرف تین ماہ کے حاصل ہونے والے منافع کی بابت معلومات کا موقع ملا تو میں چونک سا گیا اور دل کو ایک صدمہ سا محسوس ہونے لگا کہ ہمیں تو پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت کے کئی دوسرے اسباب بتائے جاتے ہیں کہ یہ کوویڈ کے بحران سے پیدا ہوا ہے یا پھر روس، یوکرین کی جنگ نے پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں کمی کردی ہے اگر ایسا ہے تو پھر تو ان کمپنیوں کو بھی منافع نہیں ہونا چاہئے لیکن واضح طور پر پتہ چل رہا ہے کہ یہ سب صرف عوام کے خون میں سے نچوڑا جارہا ہے اور ان کمپنیوں کے نہ بھرنے والے پیٹ میں ساری لوٹ مار ڈالی جارہی ہے عام لوگ بڑھتے ہوئے بجلی، گیس اور پیٹرول کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں اور تمام صورتحال پر اندھیرے میں ہیں کیونکہ یہ کمپنیاں اپنی تاریخ کا ریکارڈ منافع کمارہی ہیں۔ایک ایک کوارٹر میں 9 بلین ڈالر کا منافع، اندھیر نگری ہے۔ صرف ایکسون موبل کارپوریشن نے 9.3بلین ڈالر کا منافع دکھایا ہے جو 2022 کے صرف جنوری سے مارچ تک کا منافع ہے یہ گزشتہ 14برس میں منافع کی ریکارڈ بلندی ہے۔ شیل کا 9.1 بلین کا منافع ہے، اسی طرح بی پی کا 6.2 بلین ڈالر کا منافع ہے۔ اسی طرح ٹیسکو کاایک سال کا منافع 82.7بلین ڈالر ہے، لائیڈز کا 63.3 بلین ڈالر کا منافع ہے، گزشتہ برس میں برطانیہ میں صرف Aviva انشورنس نے906بلین ڈالر کا منافع کمایا جو تقریبا ایک ٹریلین کے لگ بھگ بنتا ہے۔ اس طرح سے لگتا ہے کہ بڑی کمپنیاں اور ان کی ایجنٹ حکومتیں صرف وہی زبان بولتی ہیں جو یہ بڑی بڑی کمپنیاں چاہتی ہیں، گزشتہ ہفتے وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں اس مسئلے کے ایک سوال پر کہا کہ اگر ہم نے ان کمپنیوں کو کمانے کی اجازت نہ دی تو ہمارا ٹیکس کی شکل میں آنےوالا ریونیو بھی کم ہوجائے گا۔ ساتھ ساتھ عوام کو تصویر کا بالکل دوسرا رخ دکھایا جاتا ہے۔ ویسے تو برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی ہو یا امریکہ کی ریپبلکن یا تیسری دنیا کی کوئی بھی پارٹی، سب کی سب عمومی طور پر ترقی یافتہ دنیا میں سرمایہ داروں کے زیر اثر ہوتی ہیں اور تیسری دنیا میں جاگیرداروں ، ملاؤں اور فوجیوں کے تابع چل رہی ہوتی ہیں، برطانیہ میں پانی کی کمپنیاں تقریبا بٹن دبا کر اربوں کے منافع میں چلی جاتی ہیں، مثلا گزشتہ برسوں میں برطانیہ میں پانی کی کمپنیوں نے سارے ملک میں پانی کے میٹر لگانے کی اسکیم کا آغاز کیا جس سے پانی گیلنز میں بکنے لگا اور کمپنیاں اربوں کا منافع کمانے لگ گئیں پھر انہوں نے ہر علیحدہ خاندان یا ہاؤس ہولڈ کے لئے علیحدہ بل جاری کرنے شروع کردیئے جس سے پھر ایک اور منافع کا ملٹی بلین کا جھٹکا لگ گیا، اب تو اس طرح کی اسکیمیں ہمیں روز مرہ کی استعمال کی دیگر چیزوں پر بھی دکھائی دے رہی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مہنگائی اور اشیاء کی کم دستیابی دراصل ہوتی ہی نہیں ہے، اسے جان بوجھ کر کم دکھا کر لوگوں سے منافع کے نام پر بھاری بھر کم اور ظلم و زیادتی سے لیس حکمت عملی بنائی جاتی ہے، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں زیادہ زیادہ منافع کمانے کی حکمت عملی ہوتی ہے جس میں انسانوں کی نہ تو ضروریات کو دیکھا جاتا ہے، نہ ہی ان کو سہولت پہنچانا مقصودہوتا ہے بلکہ لوگوں کی جیبوں سے رقوم نکلواکر چند منافع خور کمپنیوں کے پاس پہنچانا ہوتی ہے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں جو کمپنیاں کھربوں میں کھیل رہی ہوتی ہیں بھلا حکومتیں ان کے سامنے کیسے کوئی عوام دوست قانون سازی کرسکتی ہیں اور پھر سرمایہ دارانہ نظام میں تو عوام سرمایہ دار کے گاہک ہیں، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اس وقت بھی یورپ اور برطانیہ میں عام آدمی کیلئے زندگی روزانہ مزید سے مزید تر تنگ ہوتی جارہی ہے لیکن ہم نے دیکھا اتنے مشکل حالات میں بھی کمپنیاں اربوں، کھربوں کے منافع میں پہنچ رہی ہیں۔ ایسے نظام میں ہم انسان دوست وسائل کی تقسیم کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید