• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل زور و شور سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف یا اختلاف کینسرہے تو کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جس پارٹی کا پورا سٹرکچر یا خمیر ہی ڈکٹیٹر شپ پر استوار ہو کیا وہ کینسر نہیں ہے ؟ ذرا جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کو بلا کر اتنا ہی پوچھ لیا ہوتا کہ جب تمہاری پارٹی میں اندرونی انتخاب کی بات ہوئی تھی تو تمہاری پارٹی قیادت نے آمریت کے کون کون سے خونخوار دانت نہیں دکھائے تھے، بالآخر تم کیوں پارٹی سے نکال باہر پھینک دیئے گئے تھے ؟

پارٹی نظم و ضبط کا احترام اپنی جگہ مگر پہلے اس امر کا تعین کیا جائے کہ کیا ہماری ان پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت ہے ؟ کیا یہاں پارٹی لیڈر اپنی پارٹی کو ایک ڈکٹیٹر کی طرح نہیں چلاتا ؟یاد رہے کہ سیاسی پارٹیاں افراد نہیں بناتی بلکہ یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو سیاسی پارٹیوں کو تشکیل دیتے ہیں اس لیے فرد کے تشخص اور حقوق کو کچلا نہیں جا سکتا.

 اسے پارٹی لیڈر کے جبر کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے، آئین اور جمہوریت منتخب نمائندے کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے، وہ جب تک اسمبلی کا رکن ہے، اس کے ضمیر کی آواز پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی ایسی قدغن کا مطلب اس کے ووٹ یا ضمیر ہی کی توہین نہیں بلکہ ان لاکھوں عوام کی بھی توہین ہے جن کی وہ نمائندگی کر رہا ہے۔

اگر اس نے پارٹی ڈسپلن کو توڑتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کا پورا شیڈول ہے، جس میں اسے اپنی وضاحت و صفائی کے تین مواقع دیئے گئے ہیں۔ پہلا پارٹی لیڈر کو، دوسرا الیکشن کمیشن کو اور تیسرا سپریم جوڈیشری کو، اس تمام تر آئینی پراسس کو سبوتاژ کرنے کا حق کسی ایک یا چند افراد کو حاصل نہیں ہے اوریہ تو شدید آئینی جسارت ہے کہ جس فعل کا ارتکاب ہی نہیں ہوا اس کی محض مفروضے پر پیشگی سزاعائد کر دی جائے۔

پارلیمانی جمہوریت میں آئینی صدارتی عہدے پر فائز شخص کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم کی مشاورت کے علی الرغم یا اٹارنی جنرل کی مشاورت سے بالابالا کوئی ریفرنس تیار کرے اور جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا جائے؟ آخر دنیا کی کس پارلیمانی جمہوریت میں اسے روا رکھا جاتا ہے ؟ یہاں 63Aکے تحت منتخب نمائندے کی خیانت کو اٹھایا جا رہا ہے کیا اس سے اوپر اٹھ کر اگر خود وزیر اعظم کی کارکردگی اور جھوٹ در جھوٹ بولنے کا ایشو اٹھایا جائے اور اس کی خیانت ثابت کی جائے تو اس کی بھی نااہلی کا ریفرنس بنے گا؟

کیا اس شخص نے قوم سے لمبے چوڑے وعدے نہیں کئے تھے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سمیت معیشت کی بحالی و بہتری کے ایسے خواب نہیں دکھائے تھے کہ لوگ بیرون ملک سے نوکریاں لینے پاکستان آئیں گے۔ لیکن کیا اس کادہرا طرزِ عمل پوری قوم کے سامنے نہیں ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جن کو اپنے وعدے یا عہد کا پاس نہیں، اس کا کوئی ایمان نہیں اور وہ خائن، خیانت کا جو کوڑا منتخب ممبر پر برسایا جا رہا ہے وہ لیڈر پر تو ایک سو بہتر بار برسایا جانا چاہئے۔

خدا کا شکر ہے جو پیہم رات بارہ بجے عدالتیں لگنے کے طعنے دے رہے تھے آج بھرے جلسوں میں مبارکبادیں پیش کرتے پائے جا رہے ہیں حالانکہ ان شادمانیوں کے باوجود سپریم جوڈیشری کی اس متنازعہ منقسم رائے کا عملی فائدہ یا نقصان حکومت کو پہنچا ہے نہ سابقہ حکومت کے کنگ کو۔

اگلے آئینی پراسس میں وفاق کے علاوہ پنجاب حکومت کی اسمبلی میں موجود میجارٹی اسے جوں کی توں حاصل رہے گی البتہ جن لوگوں نے ایسی غیر ذمہ دارانہ رائے صدر کو بھیجی ہے شاید انہیں ادراک نہیں کہ انہوں نے آئین میں موجود اپوزیشن کے آئینی و قانونی حق عدم اعتماد کو کچل کر رکھ دیا ہے، یہ اتنی بڑی جسارت ہے جو آئین اور پارلیمنٹ کی روح کے خلاف ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین