• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے قومی سطح پر ایک وسیع تر مباحثہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ اس مباحثے میں زیادہ تر لوگ اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ دہشت گردی پاکستان میں ’’نائن الیون‘‘ کے بعد شروع ہوئی ہے کیونکہ تبصروں اور تجزیوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نائن الیون سے پہلے دہشت گردی نہیں ہوتی تھی۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ایک مخصوص واقعے سے چیزوں کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ نائن الیون سے پہلے ہونے والی دہشت گردی کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں۔ دہشت گردی پاکستان میں نائن الیون سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کراچی کے علاقہ صدر میں واقع بوہری بازار میں ہونے والا بم دھماکہ ہم آج تک نہیں بھول سکے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں 250 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اگرچہ اس وقت پرائیویٹ ٹی وی چینلز بھی نہیں تھے اور پرائیویٹ اخبارات بھی بڑے محدود تھے لیکن اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے سے پہلے بھی دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات پورے ملک میں رونما ہو چکے تھے اور اس کے بعد بھی رونما ہوتے رہے۔ 70ء کے عشرے کے آخری سالوں میں پاکستان میں شروع ہونے والی منظم دہشت گردی آج تک جاری ہے۔ دہشت گردی کی ہزار ہا وارداتیں ’’نامعلوم‘‘ افراد کے کھاتے میں ڈالی گئیں۔ کوئی چار پانچ سال پہلے دہشت گردی کی بعض کارروائیوں کو طالبان، القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے کھاتے میں ڈالا گیا یا ان گروہوں نے ان کی ذمہ داری قبول کی۔
اگر فرض کر لیں کہ نائن الیون کے بعد ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ان انتہا پسند گروپوں نے کی ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائن الیون سے پہلے تقریباً سوا دو عشروں میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر اس سوال کا درست جواب تلاش نہیں کیا گیا تو پاکستان میں نہ تو دہشت گردی کے حقیقی اسباب کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا تدارک کرنے کے لئے کوئی قابل عمل حکمت عملی وضع ہو سکتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جا رہا۔ جس طرح کراچی کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جہاں بدامنی لیاری گینگ وار کے مختلف گروہ بننے سے شروع ہوئی، اسی طرح پورے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو نائن الیون کے بعد انتہا پسند مذہبی گروہوں کی کارروائیوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لیاری گینگ وار کے گروہ بھی دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں اور طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں لیکن دیگر عوامل کی پردہ پوشی بھی دہشت گردی جیسا ہی جرم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے دہشت گردی کو روکنے میں ناکامی کا تأثر اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اس نے ریاست اور عوام کے مابین اعتماد کا رشتہ توڑ دیا ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی کا ملبہ کسی نہ کسی پر تو ڈالنا تھا۔ اس لئے پورے ملک میں دہشت گردی کے مسئلے کو ’’طالبان سے مذاکرات یا طالبان کے خلاف آپریشن‘‘ کی بحث میں الجھا دیا گیا ہے جبکہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے لوگوں کی ’’فرسٹریشن‘‘ سے کچھ وقت کے لئے نمٹنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو قومی مباحثہ ہو رہا ہے وہ صرف اسی پیرائے میں ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلز کے مذاکروں اور اخبارات کے کالموں میں سیاسی رہنما، دانشور، صحافی اور تجزیہ کار ایک مخصوص دائرے سے باہر آکر وسیع تر تناظر میں شعوری یا لاشعوری طور پر بات نہیں کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری سوچوں پر بھی کچھ غیر مرئی قوتوں کا کنٹرول ہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پاکستان کے عوام کا اجتماعی شعور وسیع تر تاریخی تناظر میں حقائق کا گہرا ادراک رکھتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی نے پاکستانی سماج، معیشت اور سیاست کو ناقابل تلافی نقصانات سے دو چار کیا ہے اور ایک طرح کا ’’تہذیبی بحران‘‘ پیدا کر دیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی سے بہت سی قوتوں کو فائدہ ہوا ہے مثلاً جنرل ضیاء الحق کے پورے دور میں ’’نامعلوم‘‘ افراد نے جو دہشت گردی کی، اس میں سیاسی قوتیں اور جمہوری تحریک کمزور ہوئی اور جنرل ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے میں مدد ملی۔ ایک مقبول عوامی لیڈر کو پھانسی دے کر پوری قوم کو ایک صدمے سے دو چار کیا گیا اور اس کے بعد مسلسل دہشت گردی کی وارداتوں نے لوگوں سے امیدیں بھی چھین لیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کو اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل اور جنوب مشرقی ایشیاء میں اتحادی افواج کے حملہ آور ہونے کے لئے طالبان اور القاعدہ نے امریکہ کو مکمل جواز فراہم کیا اور امریکہ کی طرف سے ہی ہمیں کہا گیا کہ طالبان کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف کے لئے یہ تاریخی موقع تھا۔ پرویز مشرف نائن الیون والے ڈرامے کے اسکرپٹ کے مطابق ہی پاکستان میں اقتدار پر قابض ہوئے تھے اور نائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ان کے اقتدار کو طول دینے کا جواز بنی۔ کراچی سے ملک کے شمالی علاقوں تک ہونے والی دہشت گردی سے بعض دہشت گرد گروپوں کو نہ صرف مختلف علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کا اختیار مل گیا بلکہ ان علاقوں میں غیر قانونی معیشت کا ایک نیا نظام قائم ہوا جو نہ صرف ان گروپوں کے لئے مفید تھا بلکہ اس غیر قانونی معیشت نے ریاستی اداروں کی امن قائم کرنے کی کوششوں کو بھی منفی طور پر متاثر کیا۔ اس طرح دہشت گردی سے مخصوص معاشی مفاد تخلیق ہوا جس کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا۔ گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی میں لاکھوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے لاکھوں خاندان برباد ہو گئے۔ ان خاندانوں کے دکھ پر اب دہشت گردی سے وابستہ مفاد غالب آچکا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اب صرف طالبان سے مذاکرات یا طالبان کے خلاف کارروائی کراچی میں بھتہ خوروں اور موٹرسائیکل چوروں کے خلاف کارروائی یا بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں سے مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی تک محدود نہیں رہا،یہ مسئلہ اس بڑھ کر ہے۔ اگر طالبان سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے دہشت گردی ہوتی ہے۔ اگر طالبان کے علاقوں میں کارروائی ہوگی تو اس کارروائی کا رخ موڑنے کے لئے ان علاقوں سے باہر دہشت گردی ہوتی ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دہشت گردی پر کنٹرول کرنا ہے تو وسیع تر تناظر میں پالیسی بنانا ہو گی اور پالیسی بنانے والوں کو اپنے ماضی کی پالیسیوں سے مکمل ایمانداری کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کرنا ہوگا۔
تازہ ترین