• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رضا، نیم رضا اور احتجاج کے باوجود امریکہ کے ڈرون حملوں نے بیچاری قومی غیرت کو للکار للکار کر تھکا ڈالا ہے۔ حالیہ مشقِ جارحیت پہ حیرانگی اس لئے ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ پہلی بار بلوچستان میں ہوئی ہے، جو اور وجوہات کے علاوہ مبینہ طور پر افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے حوالے سے بھی عالمی میڈیا میں مشہور ہے۔ اس بار نشانہ بنایا گیا بھی تو مُلّا اختر منصور عرف ولی محمد کو جنھیں بمشکل مُلّا عمر کی جگہ (اخباری اطلاعات کے مطابق) کوئٹہ کے قریب کسی مقام پر طالبان کی رہبر شوریٰ نے امیر کے منصب پر تعینات کیا تھا۔ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر آنے سے پہلے وہ افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ مری میں ہونے والے مذاکرات میں شامل رہے تھے۔ لیکن امیر کے منصب پر بیٹھتے ہی اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اُنہوں نے کابل کے علاوہ دیگر صوبوں میں جارحیت کی بہت حدت پیدا کر دی تھی اور مذاکراتی عمل کو ٹھینگا دکھا دیا تھا۔ اس سے اُن کی قیادت کا سکّہ تو خوب جما لیکن چہار مملکتی فورم جس میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ امریکہ اور چین بھی شامل ہیں، بس اُن کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ اور ہم بھی ہاتھ ملتے رہ گئے کہ ہماری بلی، ہمیں کو میائوں۔ مُلّا منصور کا قتل درحقیقت امریکہ کی جھنجھلاہٹ کا اظہار ہے اور خطِ برداشت سے تجاوز کا بھی کہ اس نے بلوچستان میں کوئٹہ شوریٰ کی موجودگی پر آنکھیں بند رکھی تھیں۔ ریڈ لائن پھلانگنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی اسامہ بن لادن کی بھنک پا کر امریکی باقاعدہ ایبٹ آباد میں حملہ آور ہوئے تھے۔ اور جب ہم نے قومی خودمختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی کی دُہائی بھی دی تو اس عالمی کھسیانے پن کے ساتھ کہ القاعدہ کا امیر ہماری چھائونی کے قریب ہی سے برآمد ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ دُنیا کی واحد سپرپاور کے نزدیک عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنا ایک عام سی بات ہے اور ایسی صورت میں یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب بابا بلھے شاہ کے بقول میری بکل وِچ چور کے مصداق دُنیا کا مطلوب ترین دہشت گرد ہماری زمین پر پناہ گزیں پایا گیا ہو۔ اگر ہماری جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو ہماری سرزمین بھی دہشت گردوں کی کمیں گاہ کیوں بنی؟ ویسے بھی جنرل مشرف نے ڈرونز کے استعمال کی اجازت دی تھی اور بعض اوقات یہ بلا اطلاع بھی سرحدیں پار کرتے رہے ہیں اور ہمیں اجازت تھی کہ ہم اس پر غم و غصہ کا اظہار کر کے خفگی مٹا سکیں۔ جہاں بھی دہشت گرد ہوگا امریکی ڈرون وہاں پہنچے گا، آپ بھلے کیسی ہی قانونی موشگافیوں کی جگالی کرتے رہیں؟
اخبارات ہی کی اطلاع کے مطابق، بلوچستان ہی میں مبینہ طور پر رہبر شوریٰ کا اجلاس ہوا اور اُس نے ملا ہیبت اللہ کو نیا امیر چُن لیا، سراج الدین حقانی اور مُلّا یعقوب اُنکے نائبین مقرر ہوئے ہیں۔ چھوٹتے ہی نئے امیر نے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین سے امن مذاکرات کو سختی سے ردّ کرتے ہوئے جنگ و جدل تیز کرنے کا بگل بجا دیا ہے۔ اور جب ایسا ہوگا تو جیسا کہ صدر اوباما نے عندیہ دیا ہے، امریکہ کو بلوچستان میں ڈرون حملوں سے کیسے روکا جاسکے گا۔ اگر ہمارے علاقے سے افغان طالبان کو یہ سہولت میسر رہے گی تو پاکستان کے مفرور طالبان کی افغان حکومت کی جانب سے سرپرستی پر ہماری جائز شکایات میں کیا وزن رہیگا۔ جیسے کو تیسا والا معاملہ چلتا رہا تو بھول جائیے افغانستان میں امن کو، تو یہاں امن کے پھول کیسے پھل پھول پائینگے۔ افغانستان کی نراجی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے ایسے ایسے بکائو مال ہیں جو کوئی بھی بہ آسانی کرائے پہ حاصل کر سکتا ہے اور پورا خطہ کٹھ پتلی جنگ بازوں کی پراکسی جنگوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ کشمیری القائدہ اور کشمیری جہاد کا حساب چکانے کو بھارت کو فقط پیسہ چاہئے اور کرائے کے قاتل اور افغانستان میں جن کی کوئی کمی نہیں۔ اور راستے میں ایک ایسا طویل بارڈر جس پہ کوئی روک ٹوک نہیں۔ افغان مذاکراتی عمل کی ناکامی سے پراکسی جنگوں کا بازار ایسا گرم ہوگا جو خطے کو خون میں نہلا دے گا۔
آنکھیں کھولنے اور چاروں طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان اگر امن مذاکرات کی طرف نہیں آتے تو کیا ہم اُن کے ساتھ یا اُنھیں آگے کر کے کابل پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور افغانستان کی تقسیم؟ یہ راستہ افغان مجاہدین اور طالبان کی تباہی کے بعد تیسری قیامت کا باعث ہی بن سکتا ہے اور اس سے ہمیں ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ ملنے والا نہیں۔ روس افغانستان کی ریاستی تعمیر میں کچھ کامیاب ہوا تو ہم نے اُسے مجاہدین کے ہاتھوں اُکھاڑ پھینکا اور ہمارے پیارے حکمت یار نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکہ نے ایک کھرب ڈالر خرچ کر کے جو کچھ وہاں ریاستی ڈھانچہ کھڑا کیا ہے، طالبان اُسے زمین بوس کرنے پہ تُلے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا، امریکہ چلاگیا تو کیا ہم میں سکت ہے کہ ہم اور اس خطے کے سب ممالک مل کر بھی وہاں کسی طرح کا ڈھانچہ کھڑا کر پائیں گے۔ افغانستان کا روزمرہ کا خرچہ 12 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ یہ ہندوستان کے بس میں ہے نہ ہمارے اور چین کو وہاں کوئی بہت بڑی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ چین کے مسلم جہادی وہاں پناہ نہ لے پائیں۔ افغانستان کو ہم محفوظ پشت بھی اگر بنانا چاہتے ہیں تو اُس کی اولین شرط وہاں امن اور مستحکم نظامِ حکومت ہے جو طالبان دینے سے رہے۔ اگر ہم نہیںچاہتے کہ دہشت گرد پھر سے سر اُٹھائیں تو افغان طالبان یا اچھے طالبان جو اس مسئلے کی بڑی قوت محرکہ کو پال پوس کر ہم اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں ماریں۔ ہمسایوں سے بگاڑ اور تمام دُنیا سے تنائو نے پاکستان کو بالکل تنہا کر دیا ہے اور چینی عملیت پسند ہماری مہم جوئی میں حصہ دار بننے سے رہے۔ہم نے افغان حکومت کو تو ناراض کیا ہی تھا، ایران کو بھی دھتکار دیا ہے۔ 2003ء میں چاہ بہار کی بندرگاہ کے حوالے سے سہ طرفہ معاہدہ ہوا تھا۔ اُس پر بھارت اور ایران مل کر اب رنگ بھرنے جا رہے ہیں۔ دُنیا رابطوں، بحری و بری راستوں اور علاقائی تجارت و ترقی کی راہیں کھولنے پہ مصر ہے اور ہم بھی چین کی پہل قدمی اور ذرائع سے ’’ایک پٹی، ایک سڑک‘‘ بنوانے جا رہے ہیں۔ اور یہ بھول رہے ہیں کہ گوادر اور چاہ بہار کو بندرگاہ بہنیں بنانے کے منصوبے پہ بھی کام ہو رہا ہے۔ چین ایران سے اگلے دس برس میں 500ارب ڈالرز کا کاروبار کرنے جا رہا ہے اور ارادہ اس کا گوادر اور چاہ بہار کو باہم ملانے کا ہے۔ عالمی سطح پر بھی جو شمال جنوب ٹرانسپورٹ شاہراہ (INSTC) بننے جا رہی ہے، وہ ملنے جا رہی ہے، بھارت کی مدد سے بننے والی زرانج اور دل آرام شاہراہ سے جو افغانستان کو ایران سے جوڑ چکی ہے اور جسے ایران چاہ بہار سے جوڑنے جا رہا ہے تاکہ بھارت، ایران اور افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک پہنچے اور افغانستان کو سمندر تک رسائی ملے۔ پہلے ہی چین تہران تک ریلوے لائن کے ذریعے تجارت کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت تو خود ایران کا 6.5ارب ڈالرز کا مقروض ہے اور 50کروڑ ڈالر کی سہولت جو اُس نے چاہ بہار کیلئے فراہم کی ہے وہ قرض ہے یا پھر قرض چکانے کی قسط۔ یہ سب اسلئے بھی تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہم نے ایران کیساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو طاق میں رکھ دیا ہے جبکہ ایران ہماری سرحد تک لائن بچھا چکا ہے جس نے بھارت تک جانا ہے۔ افغانستان کیساتھ ٹرانزٹ کے معاہدے پر بھی ہم نے آدھا عمل کیا ہے، افغانی ٹرک واپسی پر بھارتی اشیاء نہیں لے جا سکتے۔ جب ہم نے واہگہ بارڈر بند کر دیا تو بھارت کو افغانستان اور اُس آگے وسط ایشیاء اور ایران پہنچنے کے مختصر ترین راستے کو چھوڑ کر ایک لمبا چکر کاٹ کر چاہ بہار جانا پڑ رہا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں باہم انحصاری کے نظریئے کو فروغ دیا گیا تھا، بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف کی خواہش کے برعکس علاقائی رابطے اور تجارت بڑھانے کے عزائم کو ٹھپ کر دیا گیا ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم خود پر دُنیا تنگ کریں اور ارد گرد کی دُنیا کیلئے بھی رکاوٹیں کھڑی کریں تو دُنیا تو رُکنے والی نہیں۔ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے تو شنگھائی تعاون کی تنظیم کا رُکن بن کر علاقائی سلامتی اور ترقی کے لئے چین سے ہی مشورہ کر لیں تو شاید ہم اُس راستے پر چل پڑیں جو امن و خوشحالی کا ہے، وگرنہ افغان طالبان کے بل بوتے پر ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تمھیں بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق ایک اور کھائی میں جا گریں گے۔ اتنی قربانیاں اور تباہیاں جھیل کر ہم نے افغان طالبان کو کیا اسیلئے پناہ دی کہ وہ ہماری ہی لٹیا ڈبونے چل پڑیں۔ طالبان کو صاف کہیں کہ بات کریں اور امن کی راہ لیں، نہیں تو یہاں سے رفوچکر ہوں، پھر دیکھتے ہیں کہ افغانستان کیسے پاکستان سے بھاگے دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے یا پھر بھارت وہاں بیٹھ کر ہماری بیخ کنی کرتا ہے۔ مگر تالی تو دو ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔ چاہے ہم ہوں یا دوسرا فریق۔ بُکل کے چوروں کو نکالنے کا وقت ہے۔
تازہ ترین