• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں امید کی ایک جھلک دکھائی دی تھی کیونکہ اس نے آخر کار ڈی این اے ٹیسٹ کی شہادت، جس کو عالمی سطح پر مانا جاتا ہے، کو آبروریزی کے کیس میں تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی تاہم نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی، جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے،ابھی تک اسی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ ریپ کیسز میں چار مرد گواہوں کی شہادت ضروری ہے… جو آج کے پختہ عمارتوں کے معاشرے میں ناممکن ہے۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ نظریاتی کونسل کے اراکین کی اکثریت ان افراد کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے جان بوجھ کر کسی پر توہین ِ رسالت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انیس ارکان میں سے واحد رکن، مولانا طاہر اشرفی، نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے حق میں رائے دی لیکن ان کی تمام کوشش بےکار گئی کیونکہ دیگر اراکین نے مولانا اشرفی سے اتفاق نہیں کیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام آئین میں شامل اسلامی معاملات کے بارے میں پارلیمینٹ کو مشورہ دینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جب اس نے 1996 میں آئین ِ پاکستان میں اسلامی شقوں کے بارے میں اپنی رپورٹ پارلیمینٹ کو پیش کردی تو اس کا کام ختم ہو گیا تھا اور اسے ختم کیا جانا تھا۔ درحقیقت وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں اسلامی اپلیٹ بنچ کی موجودگی میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی جواز باقی نہ تھا لیکن یہ آج تک نہ صرف موجود ہے بلکہ بہت سے معاملات میں مداخلت بھی کر رہی ہے۔
سید افضل حیدر جو کہ سابق جج، وزیر ، مشہور وکیل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ہیں، اس کے بارے میں معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح جنرل ضیا کے دور میں توہین کا قانون ایک سعودی مفتی کی ہدایت کا ڈرافٹ کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک، مشرف کے ’روشن خیال دور‘ کو نکال کر اسلامی نظریاتی کونسل کا کام بنیاد پرست نظریات کی ترویج کے سوااور کچھ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اسلامی نظریاتی کونسل میں اعلیٰ عہدے کو اپنے پاس رکھنے کی خواہشمند رہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے ہر حکومت کے ساتھ ڈیل کی ہے۔ بدقسمتی سے پی پی پی اور اب پی ایم ایل (ن)جے یو آئی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ دونوں جماعتوں کاخیال ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک بے اثر پلیٹ فارم ہے چنانچہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی چیئرمین شپ کس کے پاس جاتی ہے۔ ایسا ہی احمقانہ تاثر درسی نصاب، جس میں نظریاتی اساس اور لازمی مضامین ہیں، کی تدوین کرنے والی کمیٹی کے بارے میں روا رکھا جاتا ہے یا تو روشن خیال مسلمانوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ ان معاملات پر اپنے نظریات کا اظہار کر سکیں یا پھر اُن کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ اس نصاب اور اس کے ذریعے پھیلنے والے نظریات نے ضیا دور سے لے کر اب تک تین نسلوں کو مذہب کا ایک مخصوص پہلو دکھا کر پاکستان کو تشدد اور عدم برداشت کے نظریات سے بھر دیا ہے۔ آج کل پاکستان میں ’’اچھے طالبان اور برے طالبان‘‘ پر جاری بحث تین دہائیوں کی برین واشنگ کا ہی نتیجہ ہے ورنہ دنیا کا کون سا معاشرہ مجرم گروہوں میں اچھائی اور برائی تلاش کرتا ہے؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک ِ طالبان پاکستان نے ریاست کے خلاف خونریز جنگ شروع کر رکھی ہے؟یہ تحریک ہر اُس چیز کو مسترد کرتی ہے جو پاکستان کے عام شہری کی ضرورت ہے چنانچہ اپنی امارت، جس میں وہ اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرسکے، کے قیام کے لئے اس نے تشدد کی راہ اپنائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ہم ان سے مذاکرات کرنے کے متمنی ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات، جیسا کہ پشاور چرچ پر حملہ اور فوجی افسران کی شہادت نے بھی حکومت کی مذاکرات کی رٹ ختم نہیں کی ہے۔ پاکستان میں معاشرے میں طالبان کے حامیوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ حملے غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے کئے گئے ہیں اور ان کا مقصد طالبان کی ’’شہرت‘‘ کو نقصان پہنچانا ہے۔ میڈیا کے کچھ حلقوں کے علاوہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایسے جواز پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے عوام طالبان کے بارے میں ابہام کا شکار رہتے ہیں۔ مولانا تو شاید طالبان سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ ان کے خلاف کھل کر بولنے کی جرأت بھی نہیں کرتے ہیں۔ جے یو آئی کے بہت سے ووٹرز انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں چنانچہ مولانا اپنے مخالفین کا آسان ہدف بن گئے ہیں۔ طالبان کی مولانا سے ناراضی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے مرکزی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خاں کی کج فہمی اُنہیں طالبان کا اصل چہرہ نہیں دیکھنے دیتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو بات اُن کے ذہن میں آگئی ہے وہی درست ہے۔ دونوں نے خیبر پختونخوا میں طالبان کے ساتھ ویسا ہی طرز ِ عمل اپنا رکھا ہے جیسا شریف برادران نے پنجاب میں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ریاست ِ پاکستان کے ہاتھوں وقت نکلا جارہا ہے۔ اس سے پہلے معاشرہ اور ریاست مزید انتشار کا شکار ہو، اس کو واپس راہ ِ راست پر لانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف نے چندماہ پہلے تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کو خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی عناصر سے ہے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ انڈیا سے زیادہ پاکستان کو ان انتہا پسند گروہوں سے خطرہ ہے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ دفاعی ادارے اس فراست کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھاتے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہماری قسمت میں شاید ایسا نہیں ہے کہ فوج ان انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر کاری ضرب لگائے اور معاشرے کو ان قاتلوں کی چیرہ دستیوں سے تحفظ دلائے۔ اس صورتحال میں جب روشن خیال حکمران، جیسا بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان سے پہلے مشرف، ایسا کرنے میں ناکام رہے تو نواز شریف سے اس جرأت ِ رندانہ کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر ِ اعظم کی تعلیم وتربیت مذہبی قدامت پرستی کی بنیادوں پر ہوئی ہے چنانچہ ان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنی حدوں میں رکھیں گے یا درسی کتب میں جہادی نظریات نکالیں گے یا مذہب کو سیاست سے جدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم ہمارے سامنے امید کی ایک کرن ہے کہ نواز شریف کاروباری ذہن بھی رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جب تک معاشرے میں امن نہیں ہو گا اور ہم ان انتہا پسندوں پر قابو نہیں پائیں گے ، معاشی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ معاشی ترقی کی اس جدید دنیا میں یقینا طالبان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تازہ ترین