• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست میں ولایت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر پاکستان میں حزب اختلاف اور حکومت پانامہ لیکس پر بات چیت پر آمادہ نظر آ رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو دیگر جماعتوں نے رہبر تو مان لیا مگر ان کے رہنما لندن میں کافی سرگرم عمل ہیں ۔پاکستان کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار بھی آج کل بجٹ پر توجہ دیتے نظر آ تے ہیں ۔ہمارے قومی بجٹ میں آمدنی کے زمرے میں کتنا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ وہ بھی ایک مشکل سوال ہے حکومت کے مختلف ادارے ایک سا جواب نہیں دیتے پھر ٹیکسوں کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ سا ہے۔ہمارے اہم رہنما اس وقت لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ پہلے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف صحت کے معاملات کی وجہ سے لندن روانہ ہوئے پھر سرکار کے اہم حلیف مولانا فضل الرحمٰن اپنے دیرینہ دوست آصف علی زرداری سے خصوصی ملاقات کیلئے لندن روانہ ہو گئے۔ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن کو شکایت ہے کہ ان کو امریکی اور یورپی ویزوں کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے مگر اس دفعہ تو کمال ہو گیا ۔برطانیہ کی سرکار نے ان کے اس دورہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔بلکہ وہ لندن میں خصوصی سیکورٹی سے بھی مستفید ہو رہے ہیں ۔شنید ہے کہ ان کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہو چکی ہے آصف علی زرداری دبئی سے خصوصی طور پر لندن آئے اور آنے سے پہلے سینیٹر رحمان ملک سے مشاورت کر چکے تھے رحمان ملک سیاسی معاملات میں جادوگری کے ماہر ہیں ان کے ایم کیو ایم کی قیادت سے خصوصی تعلقات ہیں اور ماضی میں سینیٹر رحمان ملک کی ذاتی مداخلت اور پرسنل گارنٹی پر ایم کیو ایم روٹھنے کے بعد راضی ہوتی نظر آئی ۔سینیٹر رحمان ملک پاکستانی سیاست کے گھر کے بھیدی ہیں ۔وہ اپنے سیاسی حلیفوں اور دوستوں کو مایوس نہیں کرتے ۔ ان پر بہت سے الزامات لگائے جا سکتے ہیں مگر وہ بہت ہی کامیاب سیاست دان کی حیثیت میں سب کو قبول رہے ہیں ۔ان کے بارے میں کوئی سیاست دان منفی رویہ نہیں رکھتا وہ ماضی میں سب کے کام آتے رہے۔ لندن میں ان کی رہائش گاہ مذاکرات کے حوالے سے اہم رہی ہے اور بہت سے فیصلے ان کی ذاتی کاوش کی وجہ سے ممکن ہو سکے۔ایک زمانہ میں میاں نواز شریف جب سیاسی مہاجر کی حیثیت سے ملک سے باہر تھے اور پیپلز پارٹی سے بات چیت جاری تھی تو ان کا خیال تھا کہ سینیٹر رحمان ملک پاکستان کی ملٹری سرکار اور سابق صدر جنرل مشرف کے بہت ہی قریب ہیں اس لئے ان پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ مگر اس معاملے پر شہباز شریف کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ وہ سینیٹر رحمان ملک کی خوبیوں سے واقف ہیں اس لئے انہوں نے کبھی بھی رحمان ملک کے معاملہ پر بات نہیں کی ۔ان کے دوست اور آج کے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار نے بھی سابقہ وزیر داخلہ کے بارے میںکوئی رائے نہیں دی ۔ان کی وزارت میں جو آج گھپلے نظر آ رہے ہیں ان کا الزام بھی نہیں لگایا بلکہ وہ بھی ان فائلز سے مستفید ہو رہے ہیں جو رحمان ملک کے زمانہ میں بنی تھیں پھر رحمان ملک سابقہ دور میں بھی فوجی حلقوں میں کافی رسائی رکھتے تھے ۔ان کے امریکی اور برطانیوی دوست ان پر خصوصی نظر کرم رکھتے تھے اور اہم معاملات میں ان کو رسائی بھی دیتے تھے جب بھی کوئی داخلی معاملہ خراب ہوتا یا کوئی سیاسی حلیف بدگمان ہوتا سینیٹر رحمان ملک کے پاس ایسی بوٹی ہوتی کہ ایک دو خوراک کے بعد فریقین شیرو شکر نظر آتے ۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ان کی ان خوبیوں کی وجہ سے ان پر بہت ہی اعتبار کرتے ہیں ۔بلاول زرداری کو رحمان ملک بالکل پسند نہیں ویسے وہ ایک آزاد منش بے چین روح ہیں اس کی تربیت میں برطانوی خواص اور امریکی ذہن لوگوں کا بہت ہاتھ ہے کرپشن کے معاملات پر ان کی رائے بیرونی تربیتی مشیروں کی وجہ سے ہے ان کی حفاظت ایک بین الاقوامی اہم شخصیت کے طور پر کی جاتی ہے وہ اس سیاسی شطرنج کا اہم مہرہ ہیں ۔جنرل مشرف کے دور میں جنرل معین الدین داخلی امور کے وزیر تھے جب قومی شناختی کارڈ کے ادارے نے نادرا کا روپ دھارا تو اس کی اہم انتظامیہ میں فوج کا رسوخ بہت تھا اس زمانہ میں ہمارے امریکی دوستوں نے نادرا کے سوفٹ ویئر کیلئے بہت اہم مشورے اور مدد بھی دی نادرا کی فنڈنگ میں امریکی امداد نمایاں رہی اس کے نظام میں امریکی اداروں کی مکمل رسائی رہی ۔بلکہ پاکستان ان کے ساتھ تعاون میں شریک رہا اور کوشش کی کہ داخلی خودمختاری بھی رہے اور کسی حد تک رہی پھر جب بے نظیر ملک واپس آ گئیں تو ان کو اپنے برطانوی اور امریکی دوستوں پر بہت اعتماد تھا مگر وہ سب سابق صدر مشرف کو اہمیت دیتے تھے ۔بے نظیر بددل تھیں پھر یہ فیصلہ بھی ہوا اور بے نظیر کو کمال فن سے راستہ سے بے دخل کر دیا گیا اب رحمان ملک آصف علی زرداری کے لئے میدان عمل میں اترے اور انہوں نے جنرل مشرف کی ٹیم کو قائل کر لیا کہ زرداری ایک بہترین سیاسی کھلاڑی کے طور پر سب کے کام آئینگے اور وقت نے اس کو ثابت بھی کر دیا ۔پھر کئی اہم معاملات میں آصف زرداری بڑی دبنگ شخصیت کے طور پر نمایاں ہوئے ان کی کامیاب حکمت عملی میں سینیٹر رحمان ملک کا بھی حصہ ہے ۔
باری باری کی سیاست میں جمہوریت کوتختہ مشق بنایا گیا اس جمہوری نظام نے اشرافیہ اور سیاست دانوں کو مکمل تحفظ دیا اب دوستی اور مروت کا دوسرا دور شروع ہوا ہے اس وقت بظاہر میاں نواز شریف حزب اختلاف میں تھے مگر سرکار سے اور آصف علی زرداری سے کوئی اختلاف نہ تھا ۔ہمارے وزیر داخلہ پریشان ہیں ان کو تمام معاملات کا اندازہ تھا مگر سیاست اور جمہوریت کے بندھن نے ان کو بے بس کر رکھا تھا نادرا کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے مگر اور حل بھی کیا ہے۔اب بھی ہمارے ہاں کے جمہوری اور سیاسی فیصلے ولایت میں ہوتے ہیں تمام صاحب ولایت لوگ لندن میں غوروفکر کر رہے ہیں کہ معافی تلافی کا کوئی ایسا فارمولا تیار کیا جائے کہ کمائی بھی ضائع نہ ہو پہلے تو معافی تلافی کا فارمولا جنرل کیانی نے لکھا تھا اور ان کو بھی جنرل مشرف اور بے نظیر نے مایوس کیا بلکہ جنرل مشرف جنرل کیانی سے بھی ناراض ہو گئے تھے اب نئے فارمولا میں سابق صدر مشرف اور قرضے لینے والے سہولت کار بیرون ملک جائیداد رکھنے والے ٹیکس بچانے والے معافی کے لئے قابل قبول ہونگے اس معاملہ کی تجاویز پر امریکی برطانوی چینی دوست بھی سرگرم عمل ہیں ۔حضرت مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، ایم کیو ایم کے قائد اور جناب وزیر اعظم باہمی مفادات کے تناظر میں غوروفکرکر رہے ہیں معافی تلافی کے فوراً بعد انتخابات ہو سکتے ہیں دوسری طرف اعلیٰ اختیاراتی حلقے ملک کی اعلیٰ عدالت سے کرپشن کے خاتمہ کے لئے رہنمائی چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کام میں کون پہلے نظر آتا ہے۔
تازہ ترین