• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا میں کچھ لوگوں کو ایسی تکالیف درپیش ہوتی ہیں، جو دوسرے کسی شخص کو نہیں ہوتیں۔ ایک آدمی، پورا زمانہ جسے جینئس مانتا ہے، ایک ایسی عورت سے شادی کر بیٹھتا ہے، جو اسے ذہنی ہی نہیں بلکہ جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتی ہے۔ ابراہام لنکن سمیت بڑی بڑی شخصیات کے بارے میں ایسی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ انسان حیرت سے ان لوگوں کو دیکھتا رہ جاتا ہے، جو قابلِ نفرت ہوتے ہیں لیکن ان کی بیویاں اور بیٹیاں ان کے پائوں دھو دھو کر پیتی ہیں۔

ایک بار ایک عجیب وڈیو دیکھی۔ ایک بچہ کاغذ چننے والوں کے ہاں پیدا ہوا۔بچپن میں لڑ جھگڑ کر کچھ عرصہ کیلئے اسکول میں داخل ہوا۔ کاغذ پہ لکھے الفاظ پڑھتا رہتااور گھر میں رہ کر تیاری کرتا اور امتحان دیتا۔ آخر ایک مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے پر اسے امریکی اسکالرشپ ملی۔ علاقے میں شور مچ گیا۔ امریکہ سے انگریزی میں اس نے اپنی وڈیو ریکارڈ کر کے بھیجی۔ اس پوری وڈیو میں لگا تار وہ روتا رہا۔ آپ کے خیال میں اس لڑکے کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا تھا؟ سب کہیں گے : کاغذ چننے والوں کے ہاں پیدا ہونا۔ یہ جواب غلط ہے۔ اس کا اصل مسئلہ اور اصل دشمن اس کے آنسو تھے۔

یہ آنسو تب بہتے ہیں، جب انسان اپنے آپ پہ ترس کھانے لگتا ہے۔ تصوف اور نفسیات کی زبان میں اسے خودترحمی کہتے ہیں۔ خود ترحمی میں انسان اپنے آپ سے شدید محبت اور شدید ہمدردی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اتنا جذباتی ہو جاتاہے کہ اس کی تمام تر توانائی آنسو بہانے میں صرف ہونے لگتی ہے۔ اس کے مزید آگے بڑھنے کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ نفس کو اپنے ساتھ‘چونکہ شدید محبت ہوتی ہے‘ اس لیے اپنے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے اسے لذت محسوس ہوتی ہے۔ انسان اس لذت کا عادی ہو جاتاہے۔ اس دوران اس کے دماغ میں ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں‘ جو اسے منشیات کی طرح کی لذت بخشتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جس کام میں انسان کو مسلسل لذت مل رہی ہو، اس نے باقی زندگی اسی کام میں گزارنی ہے۔ ویسے ہی تو منشیات کے عادی افراد اپنی پوری زندگی، اولاد اور عزت کو فراموش نہیں کر ڈالتے۔

ایک لڑکی یاد آتی ہے۔ کسی غیر ملکی ٹی وی کا ایک پروگرام تھا۔اس کا نام تھا؛ ’’Boemerang‘‘۔ اس پروگرام میں سرجنز کے ہاتھوں سرزد ہونے والی ایسی غلطیوں پہ روشنی ڈالی گئی، جن سے مریضوں کی زندگیاں تباہی سے دوچار ہو ئیں۔اس لڑکی کی کمر میں ایک ٹیومر تھا۔ سرجری کے دوران ڈاکٹر کی غفلت سے ریڑھ کی ہڈی تڑخ گئی۔ وہ ساری زندگی کے لیے معذور ہو گئی۔ اس کے شریکِ حیات نے اسے چھوڑ دیا۔ ظاہر ہے کہ اب کون اسے چنے گا؟ وہ اس قدر روئی کہ پروگرام کے دوران کچھ بتا بھی نہ سکی۔ ایک مثال منیبہ مزاری کی بھی تو ہے‘ جس نے معذور ہونے کے بعدزندگی میں بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔

ایک مثال اسٹیفن ہاکنگ کی بھی ہے۔ ٹی وی شو میں مسلسل رونے والی لڑکی کی زبان کام کر رہی تھی۔ اس کے بازو کام کر رہے تھے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کے قابل تھی۔ وہ اپنے ہاتھ سے وہیل چیئر استعمال کرنے کے قابل تھی۔ اس دور کا سب سے بڑا طبیعیات دان اور فلکیات دان اسٹیفن ہاکنگ اپنی انگلی بھی ہلا نہیں سکتا تھا۔ ایک لفظ بھی بول نہ سکتا تھا۔ دنیا سے اس کی تمام تر بات چیت اس کے گال پہ لگے سنسر کی مرہونِ منت تھی۔ آخری وقت میں یہ معمولی حرکت بھی ختم ہو رہی تھی۔ آپ اسٹیفن ہاکنگ کا کوئی بھی انٹرویو اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہ آپ کو کہیں بھی روتا ہوا یا جذباتی نظر نہیں آئے گا؛ حالانکہ جس طرح کی اور جتنی طویل معذوری اسٹیفن ہاکنگ نے گزاری‘ وہ لڑکی تو اس کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ باکسر محمد علی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ جس قدر قوت کے بعد جتنی خوفناک اور طویل بیماری اس نے دیکھی، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ سائنسی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ با وسائل ہونے کے باوجود اسٹیفن ہاکنگ مکمل طور پر معذور تھا۔ وہی مکمل طور پر معذور شخص دنیا کا سب سے مشہور شخص بن جاتا ہے۔ ایک بار اس نے خود کہا کہ جسمانی معذوری نے اسے زیادہ سوچنے کے مواقع فراہم کیے۔شاید یہ شہرت اور کامیابی خدا کی طرف سے اس معذوری کی تلافی تھی۔ جہاں تک خود تک رسائی کا تعلق ہے‘ خدا کوئی گری پڑی شے نہیں‘جو دوسری کامیابیوں کے ساتھ بونس میں مل جائے۔

دنیا میں آپ کو جتنے بھی نامور لوگ ملیں گے‘ سبھی کی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایسی تکلیف نظر آئے گی، دوسرے جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ نامور وہ تبھی ہوئے، جب ماتم کرنے کی بجائے اس تکلیف کو قبول کیا۔ آپ کی زندگی میں کوئی ایسی تکلیف موجود ہے‘ جو دوسروں کو نہیں تو یہ اتفاقیہ ہرگز نہیں۔

تکلیف ہی سکھاتی ہے۔ بچہ جب لڑکھڑاکر گرتا اور تکلیف سے گزرتا ہے تو توازن برقرار رکھنا سیکھتا ہے ورنہ ساری زندگی گرتا ہی رہتا۔ زندگی میں جو تکالیف آپ برداشت کرتے ہیں، وہ خصوصی طور پر خدا نے آپ کے لیے ڈیزائن کی ہیں۔ تکلیف میں عظمت تک پہنچنے کے کچھ راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس تکلیف میں چھپی ہوئی لافانی عظمت تک پہنچتے ہیں یا اکثر لوگوں کی طرح خودترحمی کا شکا ر ہو کر خود کو مستقل طور پر آنسوئوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ سوچ میں گہرائی پیدا کرنے کیلئے تکلیف لازم و ملزوم ہے۔خوفناک تکلیف سے گزرنے والا ہی تڑپا دینے والا شعر لکھتا ہے۔

تازہ ترین