• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے دور کی معیشت ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جسے عام آدمی تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی نہیں سمجھ پاتے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دن بہ دن مہنگائی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟مجھے تعجب ہے اس بات پر کہ سرمایہ مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتا کیوں چلا جاتا ہے اور انتہائی محنت سے کمائی گئی دولت برف کی مانند لمحہ بہ لمحہ پگھلتی کیوں چلی جاتی ہے؟ہر روز معیشت کے گاڈ فادرز بتاتے ہیں کہ آج تمہارے روپے کی قدر میں اتنی گراوٹ ہو گئی۔آپ کی تجوری یا بنک اکائونٹ میں دس لاکھ روپے موجود تھے،اچانک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم ہوئی، نامعلوم ڈاکو آپ کی تجوری سے ایک لاکھ روپے اس مہارت کے ساتھ لے اڑے کہ نوٹ تو موجود ہیں مگر ان کی حیثیت محض کاغذ کے ٹکڑوں کی سی ہے۔معیشت کے پنڈت بتاتے ہیں کہ مالیاتی نظام طلب اور رسد پر استوار ہے۔جب حکومتیں بے دریغ نوٹ چھاپتی چلی جاتی ہیں ،مارکیٹ میں کرنسی کی بہتات ہو جاتی ہے تو بے قدری و بے توقیری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار اور کرنسی میں توازن ہو تو نہ صرف روپے کی قدر مستحکم رہے بلکہ مہنگائی بھی نہ ہو۔ باالفاظ دیگر ،اگر جو اگُایا،بنایا اور کمایا جائے ،اتنے ہی نوٹ زیر گردش ہوں تو کوئی بھونچال نہ آئے۔
میں سوچتا ہوں کیا ہماری ملوں نے کپڑا بُننا چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے کارخانوں اور فیکٹریوں میں سیمنٹ ،کھاد اور گھی کی پیداوار رک گئی ہے یا پھر زمینیں بنجر ہو گئی ہیں کہ آج دو وقت کی روٹی کا حصول ہی دشوار ہو گیا ہے؟گاہے خیال آتا ہے کہ دن بہ دن آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،شاید ہم اس تناسب سے پیداوار نہیں بڑھا سکے اس لئے یہ دن دیکھنا پڑا۔اگرچہ افزائش نسل کے ساتھ ہی افرادی قوت بھی دوچند ہو جاتی ہے اور کمانے والوں کی تعداد بڑھ جانے کے نتیجے میں یہ خیال دم توڑ دیتا ہے لیکن میں نے سوچا کیوں نہ اس نہج پر بھی تحقیق کر لی جائے۔1960ء میں جب مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا،اس وقت ہماری آبادی 6 کروڑ تھی جبکہ آج ہمارے ملک میں 18کروڑ انسان ہیں یعنی جمع تفریق کے نتیجے میں اس عرصے کو دوران آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا۔ اب آتے ہیں پیداوار کی طرف۔1960ء میں گندم کی مجموعی پیداوار 3909 ملین ٹن تھی جبکہ گندم کی موجودہ پیداوار 24000 ملین ٹن ہے یعنی اناج کی مجموعی پیداوار میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔اب اگر آبادی کے مقابلے میں گندم کی پیداوار میں دگنا اضافہ ہوا ہے تو طلب اور رسد کے فطری قانون کے تحت روٹی سستی ہونا چاہئے تھی نہ کہ مہنگی۔لیکن اس دور کے مقابلے میں آج آٹے اور اناج کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔آپ کسی بھی زرعی پیداوار کا موازنہ کر لیں ،آبادی کے مقابلے میں مجموعی پیداوار کا تناسب کم و بیش یہی رہے گا۔گزشتہ66سال کے دوران صنعتوں کا پہیہ رواں دواں ہوا، نت نئے کارخانے لگے،خدمات کے شعبے میں غیر معمولی ترقی ہوئی مگر معاشی جادوگر اعداد و شمار کی بھول بھلیوں میں لے جاتے ہیں اور یہ بتا کر ہماری راہ کھوٹی کر دیتے ہیں کہ جی این پی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا،انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہو گئی، زر مبادلہ کے ذخائر گھٹ گئے،افراط زر بڑھ گیا.......یوں معیشت کے گاڈ فادرز بھاری بھرکم اصطلاحات کے ساتھ ہر چیز کو میزان زر میں تولتے ہیں اور ایک نیا پنڈورا باکس کھولتے ہیں تو مجھ ایسے ’’جاہل‘‘ لوگ، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، کی دہائی دیکر پھر سے کولہو کے بیل کی طرح کام میں جُت جاتے ہیں۔
چند روز قبل بھلے وقتوں کی ایک خبر دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی۔آج قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان نے 1963ء میں مغربی جرمنی کو 20 سال کے لئے 12کروڑ کا ترقیاتی قرضہ دیا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ڈالر 18روپے کا ہوا کرتا تھا۔چینی وفد پاکستان آیا تو کراچی میں ہمارے ایک بنک کے پلازہ کی بلندبانگ عمارت دیکھ کر حیران رہ گیا ۔یہی وہ دور تھا جب جنوبی کوریا کے ماہرین پاکستان آئے اور ہمارا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ اٹھا کر لے گئے۔آج جنوبی کوریا ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر رہا ہے اور ہم پستی و بدحالی کی جھاڑیوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔جب پاکستان بنا تو ایک روپے اور ایک ڈالر کی قدر یکساں تھی لیکن اب ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے لیکن پورا سچ یہ ہے کہ ہماری کرنسی ٹکے ٹوکری ہوتی جا رہی ہے۔ اس لوٹ مار کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں جو معاشی پنڈتوں کی ہدایت پر چلائی جاتی ہیں۔ ہم گندم اُگاتے ہیں،پسینہ بہا کردہاڑی لگاتے ہیں اور بدلے میں کیا پاتے ہیں،چند نوٹ۔جن پر لکھا ہوتا ہے ’’حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا ۔بنک دولت پاکستان 100 روپیہ حامل ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘۔ہم محنت کے عوض بطور اجرت یہ نوٹ حاصل کرتے ہیں اور حکومت جب چاہتی ہے ہمارے نام پر قرض اٹھا لیتی ہے۔قرض لیکر بھی اخراجات پورے نہ ہوں تو جب جتنے چاہے نوٹ چھاپ کر ہماری محنت پر پانی پھیر دے ۔جب پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی تو میاں نواز شریف نہایت دردمندی سے بتایا کرتے تھے کہ حکومت روزانہ2 ارب روپے کے نوٹ چھاپ کر جو پیسے بانٹ رہی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ کو ایک ہاتھ سے ایک لقمہ دے کر دوسرے ہاتھ سے دو لقمے چھینے جا رہے ہیں لیکن خود وزیراعظم بننے کے بعد میاں صاحب ان معاشی گاڈ فادرز کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ گزشتہ حکومت پورے سال میں جتنے نوٹ چھاپا کرتی تھی انہوں نے وہ کوٹہ صرف 00 1 دن میں پورا کر لیا ہے۔
عام آدمی تو یہ ظلم چپ چاپ سہتا رہتا ہے مگر جس کے پاس دھن دولت ہوتی ہے وہ استحصال کے اس چنگل سے نکلنے کی خاطر عام آدمی کی زندگی کچھ اور دشوار کر جاتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ ایک ناقابل اعتبار کرنسی جو وقت کی تمازت سے برف کی صورت گھلتی جاتی ہے،اس پر انحصار کیوں کیا جائے؟کیوں نہ اپنا سرمایہ ڈالر کی شکل میں محفوظ کیا جائے۔جب ہماری اشرافیہ روپوں میں لوٹی گئی رقوم کو ڈالروں میں تبدیل کراتی ہے اور ڈالر کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور روپے کی طلب کم ہو جاتی ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے۔استحصال پر مبنی اس مالیاتی نظام کی تباہ کاریاں محض پاکستان تک محدود نہیں ۔بھارتی معیشت کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی اور پستی کی جانب لڑھکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ یورپی ممالک میں عام آدمی کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی جا رہی ہے۔اٹلی کے صدر برلسکونی کی عیاشیوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے۔یہ عیش و طرب اطالویوں کی گُھٹی میں شامل رہا ہے لیکن کساد بازاری کا یہ عالم ہے کہ میلان کے اچھے خاصے بزنس مین آئس پارلر جا کر آہستگی سے کہتے ہیں’’جی لیتو پی کولو‘‘یعنی چھوٹا کپ لائو آئس کریم کا۔رومانوی زندگی ہی کیا ،یورپ کے لوگ شام کو پب جا کر پارٹیوں میں انجوائے کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ہمارے جیسے فاقہ مست ملک میں تو ہر روز غذائی اجناس مہنگی ہوتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ میلے کچیلے ہاتھوں میں تھامے نوٹوں کی کوئی وُقعت ہی نہیں رہی۔دانشور تو کہتے ہیں کہ روپیہ اتنا نہیں گرتا جتنا انسان گر جاتا ہے لیکن میں حاجت کے قدموں میں گرتے انسان کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے اس دوڑ میں پیسہ انسان سے ہمیشہ آگے نکل جاتا ہے اور اسے پانے کی تگ و دو میں گرتا انسان اٹھ ہی نہیں پاتا۔یہ تماشا دیکھ کر مجھے ایک ہی خیال آتا ہے،جب زرعی پیداوار بڑھ رہی ہے،ہم فصلیں اگا رہے ہیں،کارخانے اور ملیں چلا رہے ہیں،دن رات کما رہے ہیں تو غربت کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟مہنگائی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور ہماری دولت مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتی کیوں جا رہی ہے؟
تازہ ترین