• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشی اور غم دو ایسے موسم ہیں جو زندگی میں ہر کسی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں نہ ان سے فرارممکن ہے اور نہ ہی پہلوتہی، اگست کا آخری عشرہ اور ستمبر کا پہلا ہفتہ بیٹی کی شادی میں مصروف رہا جب کہ ستمبر کادوسرا ہاف آغاز سے تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ بڑے بھائی غفار مرزا وفات پا گئے، یوں کالم لکھنے میں تاخیر ہو گئی حالانکہ میں نے اس رات بھی اداریہ لکھا تھا جس روز میرے والد صاحب کا وصال ہوا تھا یہ نومبر 1993ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں ایک ہفت روزہ کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا لیکن اب کی بار خوشی اور غم کچھ اس طرح سے گڈمڈ ہو گئے کہ کچھ بھی نہ لکھا جا سکا، بالکل ویسے ہی جیسے CNG اور پیٹرول. MIX ہو جائیں تو گاڑی رک جاتی ہے، یہ جملہ میں نے پوری سنجیدگی سے لکھا ہے، کچھ عرصہ پہلے ہمارے دیرینہ دوست اور ممتاز قلمکار بشارت علی سید نے مجھ سے کہا کہ یار جبار مرزا ہماری دوستی کو چالیس سال ہو گئے لیکن پلٹ کے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں کوئی دکھ نہیں دیا ہنسی خوشی ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں زندگی کا یہ سفر ایسے گزر گیا جیسے آج کل کراچی سے راولپنڈی تک پاکستان ریلوے کی بزنس کلاس میں گزرتا ہے ، لیکن اب زندگی افتادگی کی طرف مائل ہے یا پھر قویٰ مضمحل ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے سفر کی گرانی محسوس ہونے لگی ہے۔ زندگی کے کسی ایسے ہی مرحلے پر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
شفیع عقیل ہماری قلمکار برادری کا بڑا حوالہ اکثر مجھ سے گلہ کرتے کہ تم کراچی آتے ہو اورملے بغیر چلے جاتے ہو میں ان سے کہا کرتا کہ آپ گھر میں لگے پی ٹی سی ایل نمبر کے سوا کہیں رابطے پر نہیں آتے آپ کے پاس موبائل ہوتا تو دن میں اطلاع کر کے آجاتا وہ کہتے ’’موبائل تو میرے پاس نہیں ہے اورنہ لوںگا‘‘ میں نے ایک بار انہیں تحریک دینے کے لئے کہا کہ اب تو لاہور میں جناب قدوائی صاحب نے بھی موبائل رکھ لیا ہے، شفیع عقیل نے کہا میں پھر بھی نہیں لوںگا، خیر 6 ستمبر کو میں کراچی پہنچا اگلے روز7 ستمبر کو بیٹی کا ولیمہ تھا خیال تھا ولیمے سے فارغ ہوتے ہی شفیع عقیل صاحب سے ملوںگا مگر وہ مزید انتظار نہ کر سکے اور زندگی کا طویل مگر بھر پور عرصہ گزار کر اسی روز عدم سدھار گئے جس روز میں کراچی پہنچا تھا، کراچی میں اتنے نکھرے ہوئے لہجے میں پنجابی بولنے اور لکھنے والا شاعر جو ترجمے میں یکتا ہو جس کی اردو نثر بھی شفاف تھی جو بچوں کا دوست اور بڑوں میں بڑا بلند ہمت سرتاپا محنت اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، لگتا ہے زندگی اس طرح کے کچوکے لگا کر ہمارا سفر کھوٹا کرنے کی کوشش میں ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہے!
جنوری 2009ء سے آج تک روزنامہ جنگ کے توسط سے کم و بیش پنتیس ایسی لڑکیوں کی شادی کرانے کا شرف حاصل ہوا جو محض جہیز نہ ہونے کی بنا پر انتظار میں بیٹھی تھیں، جنگ کے قارئین میں امریکہ میں مقیم محترم عارف لطیف، آسٹریلیا کے رضوان صاحب، فرانس کی فرخ، ناہید صاحبہ، نائیجیریا کے جناب فہیم جنجوعہ، برطانیہ کے ڈاکٹر زاہد وحید صاحب اور راولپنڈی پاکستان کے کرنل اخترصاحب یہ چند وہ احباب ہیں جنہوں نے میرے کالموں میں ضرورت مندوں کی نشاندہی کرنے پر ان والدین کے کندھے سے کندھا ملا کر یوں جا کھڑے ہوگئے کہ یہ احساس ہی نہ رہا کہ کون کس کی بیٹی ہے ایسا لگا کہ واقعی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں، اس تصور کو اور بھی تقویت اس وقت ملی جب میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی تاریخ طے کی تو احباب کی محبت اور شادکافی تھی کہ لفظوں میں ان جذبوں کو بیان کرنا محال ہے ۔
آئی ایس پی آر کے بریگیڈیر عتیق صاحب کو فون کر کے کنفرم کرنا چاہا کہ کارڈ ملا کہ نہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر کارڈ نہ بھی ملتا تو ہمیں اپنے ذرائع سے پتہ چل جانا تھا اور ہم خود چلے آتے کیوں کہ وہ آپ کی ہی نہیں ہماری بھی بیٹی ہے اسی قسم کے جذبات جناب یوسف عالمگیرین کے بھی تھے، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی ناسازئی طبع کے باوجود اسلام آباد فیصل مسجد میں پہنچے اور نکاح کے گواہ بنے، جناب عطاء الحق قاسمی نے بھارت جانا تھا مگر وہ اسلام آباد سے ہو کر واہگہ گئے، افواج پاکستان کے چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے جذبات لائق تحسین تھے اخبار فروشوں کے تاحیات سیکرٹری جنرل جناب ٹکا خان کی خوشی دیدنی تھی اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سربراہ ظفر بختاور اور گرین ٹاسک فورس کے چیئرمین جمال ناظر شہر کی کئی تقریبات چھوڑ کر پہنچے ہوئے تھے۔ ممتاز مسلم لیگی رہنما جناب نثار احمد نثار پیرانہ سالی کے باوجود عقیدت و محبت کے جذبات کے اظہار کے طور پرجلوہ افروز تھے بہت سے دیرینہ دوست ڈاکٹر، پروفیسر، شاعر ادیب، اخباری دنیا کے معتبر حوالے، اخبار نوسیوں کے دیرینہ دوست جناب اشفاق گوندل اور کئی دیگر نام گروپ کییٹن مظہر، معروف محقق ذوالفقار کاظمی، عبداللہ عباس سولہن اور ایڈووکیٹ رشید قمر کے علاوہ جسٹس سجاد شاہ، آمد کوئٹہ سے پارلیمنٹیرین ناظر شاہ صاحب کی محبتوں اور جوہر آباد سے ملک نسیم احمد آہیر کے الفاظ میں کیسے بھلا سکتا ہوں۔ لاہور سے علامہ عبدالستار عاصم اور اسلام آباد کے بنی گالہ سے مظہر برلاس کی بھر پور نمائندگی بھی لائق تحسین ہے، جناب صدیق الفاروق سے اعجاز الحق صاحب تک اور جنرل احتشام ضمیر سے ممتاز بیوروکریٹ عباس راجہ تک کتنے ہی دوست تھے جو تقریب میں میرا مان ودھائے ہوئے تھے، بھارت کے عظیم صوفی معین الدین چشتی کے موجودہ متولی کی نمائندگی جناب پیر برکات صاحب نے کی اور برطانیہ کے دورے کے دوران عید گاہ شریف راولپنڈی کے روحانی پیشوا جناب پیر نقیب الرحمن صاحب نے اپنی نمائندگی کے لئے بریگیڈیئر بشیر صاحب کو تاکید فرمائی تھی، بھارت کے شہر نیودہلی سے جناب سرجیت سنگھ لانبہ نے چار رنگوں میں خوبصورت طباعت سے مزین قرآن الحکیم کا تحفہ بھجوایا کتنے ہی دانشور دوست احباب اخبار نویس اور سیاست دان ہیں جن کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا جا سکتا، کراچی سے جناب حنیف طیب، جناب شاہد بخاری، احمد طرازی اور ممتاز بینکار اختر علی خان کی آمد بھی ہم نہیں بھلا سکیں گے، کراچی ہی کے ممتاز تاجر جناب سہیل ہاشمی کی موجودگی ہمارے لئے عطیہ خداوندی سے کم نہ تھی، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سے پورے پورے خاندانوں کی تشریف آوری اور پاکستان کی تقریباً تمام شہروں سے احباب رشتہ داروں کی آمد مدتوں یاد رہے گی آزاد کشمیر کی نمائندگی مذہبی امور کے سیکرٹری اکرم سہیل صاحب نے کی تھی، سچی بات ہے ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم بیٹی کی رخصتی جیسے عظیم فرض سے عہدہ برا ہوئے ہمیں کسی نے محسوس ہونے ہی نہیں دیا، واقعی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔
تازہ ترین