ہمارے ایک صنعت کار دوست سے بہت عرصے کے بعد ایک شادی میں ملاقات ہوئی میں نے پوچھا آج کا اخبار پڑھا، میرا مطلب اُن سے بلوچستان میں زلزلہ سے ہونے والی تباہی کے متعلق ردعمل پوچھنا تھا۔کہنے لگے20سال سے میں نے تمام اخبارات کا پڑھنا بند کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خبریں اور مباحثوں، ٹی وی ٹاک شوز سب دیکھنا بند کر رکھے ہیں اگر کوئی اچھا ڈرامہ خصو صاً مزاحیہ ڈرامے کبھی کبھی دیکھتا ہوں۔گھر میں شہر کے حالات پر تبصرہ بھی منع کر رکھا ہے۔ اکژ شہر کی شادیوں میں آنا جانا بھی اب بہت حد تک کم کر رکھا ہے تو میں سکون سے ہوں۔ پہلے اخبارات کے مطالعے سے میرا بی پی اکژ بڑھا رہتا تھا، رات کو نیند بھی کم آتی تھی وہ بھی آدھی رات گزرجانے کے بعد کبھی کبھی تو نیند کی گولیاں بھی لیتا تھا۔ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق میں رات عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھا کر ایک آدھ اچھا معلوماتی جرنل ،کتابیں یا پھر یورپ، امریکہ کی نیٹ سے تخلیق (ریسرچیں)پڑھ کر جلد سو جاتا ہوں۔ اب نہ بی پی بڑھتا ہے اور نہ نیند یا سکون آور ادویات لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ صبح آنکھ بھی جلد کھل جاتی ہے، نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کے لان میں چہل قدمی ایک آدھ گھنٹہ بڑے آرام سے گزر جاتا ہے ،ہلکا پھلکا ناشتہ کر کے دفتر روانہ ہو جاتا ہوں۔زیادہ وقت گھر میں بچوں کے ساتھ گزر جاتا ہے تو دن دفتر میں، اسی وجہ سے بہت عرصے کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ پھر کہنے لگے آپ کے دن رات کیسے گزر رہے ہیں، میں نے بتایا میں اس سے مختلف زندگی گزار رہا ہوں، صبح اُٹھ جاتا ہوں، نماز کے بعد اب اخبارات کا مطالعہ تو مشکل ہوتا ہے کیونکہ اخبارات 8:00بجے سے پہلے نہیں آتے اس لئے نیٹ پر تمام اخبارات پڑھنا پڑتے ہیں جس سے واقعی کوفت ہوتی ہے۔ سوچا تھا کہ اب نئی حکومت کے آنے کے بعد سے کراچی کے حالات بہتر ہوں گے مگر اب4ماہ گزر چکے ہیں،کراچی میں رینجرز نے بھی آپریشن شروع کر رکھا ہے مگر دہشت گردوں اور بھتہ مافیا سے کراچی والوں کو نجات نہیں مل سکی۔ پورے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے کوئی بڑا شہر، مسجد، امام بارگاہیں نہیں بچی تھیں کہ اب تو پشاور میں ہمارے اقلیتی مسیحی گرجا گھر کو بھی انہوں نے نہیں چھوڑا اور بے گناہ خواتین، بچے ،بوڑھوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں چھوڑا جس سے پوری دنیا میں ہماری بہت بدنامی ہو رہی ہے۔ ہم اب بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناتے عالمی برادری کا منہ کیسے بند کر سکتے ہیں، جنہوں نے مارنے کی ذمہ داری قبول کی وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ جب ہماری بات چیت زیادہ بڑھی تو کہنے لگے بھائی معاف کرنا میں تو گھر چلا، وجہ میں گھر سے کھانا کھا کر آیا تھا، میزبان کے بہت اصرار پر شریک ہوا، اللہ حافظ کہہ کر وہ ابھی کھانا بھی نہیں لگا تھا میزبان سے اجازت لے کر رخصت ہو گئے جبکہ ابھی بہت سے مہمان شادی ہال میں داخل ہو رہے تھے۔ مجھے بھی جلد سونے کی عادت اور صبح جلد اُٹھنے کی عادت ہے۔ سو میں نے بھی گھر کی راہ لی مگر راستے بھر یہ سوچتا رہا کہ اے خدا پہلے تو ہمارے بھائی بند ایک دوسرے کو مذہبی جنون میں، فرقوں کی آڑ میں مار رہے تھے، ان مسیحی لوگوں نے ان کا کیا بگاڑا تھا جو ان کو بھی نہیں بخشا وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟اور اب سانحہ بلوچستان کی اس خبر نے تو ہر محب وطن شہری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب علیحدگی پسند تنظیم میں بھی ایسے بگڑے نوجوانوں نے زلزلہ سے متاثرین کی امدادی ٹیموں کو منع کر دیا ہے کہ وہ کسی باہر سے آنے والوں کی کوئی امداد ان متاثرین تک نہیں پہنچنے دیں گے، ہمارے فوجی جوانوں اور نیم فوجی دستوں کو بھی منع کر دیا گیا گویا متاثرین پاکستانی نہیں کوئی غیر ملکی ہیں یا پھر امداد دینے والی ٹیمیں غیر ملکی ہیں۔ ابھی تک حکومت کا ردعمل پوری طرح سامنے نہیں آیا، ہمارے وزیراعظم صاحب خود اس سانحہ کے باوجود ابھی تک غیر ملکی دورے پر ہیں اگرچہ ایسے موقعوں پر تو بڑے بڑے ممالک کے سربراہان ہر صورت میں واپس اپنے ملک میں آکر خود امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ زلزلہ آسمانی آفت ہے اس میں پوری قوم کو ساتھ مل کر ان متاثرین کی بھرپور امداد کرنی چاہئے اور کوئی سیاست نہیں کرنی چاہئے مگر افسوس کچھ غیر محب وطن افراد اس سانحہ سے بھی سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم صاحب اپنا دورہ ملتوی کر کے کوئٹہ میں بیٹھ کر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس سانحے سے نمٹنے کے اقدامات کرتے تو حالات مختلف ہوتے یا پھر صدر مملکت بھی خود جا کر متاثرین کی بحالی کے اقدامات کا جائزہ لیتے اور متاثرین کو بھرپور امداد فراہم کرتے تو بہتر تھا مگر وہ بھی کیا کریں کراچی میں اپنے عزیز کو بھتہ خوری سے نجات نہیں دلا سکے جس کی دکان پر فائرنگ کی گئی تھی اور پولیس بھی کچھ نہ کر سکی۔ تمام سیاسی جماعتیں اخباری بیانات، ٹی وی چینلز سے ہمدردی کا اظہار کر کے اپنا فرض پورا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور وہ گرم جوشی جو کشمیر، مانسہرہ اور شمالی علاقہ جات میں ماضی میں زلزلے کے متاثرین کے لئے دیکھنے میں آئی تھی، بلوچستان کے متاثرین کے لئے نہیں دیکھنے میں آئی۔ یہ سرد ردعمل بھی ہماری قومی یکجہتی کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ پتہ نہیں ہمارے وطن عزیز کو کس کی نظر لگی ہے، لگتا ہے خود ہماری کوتاہیوں نے ہم کو اس درجہ گرا رکھا ہے جس کی ہمیں خبر تو ہے مگر ہم بے حس ہو چکے ہیں۔