• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی یہ سمجھے کہ امریکہ کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ مختلف ممالک کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم رکھتا ہے، اور آتش و آہن کی بارش کا سامان بیچ بیچ کر کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہے تو یہ استدلال دیوانگی اور کم عقلی کی شہادت کے علاوہ کچھ بھی نہیں!یہ بات بھی قابلِ قبول نہیں کہ امریکی اسلام دشمن ہیں یا وہ اسلامی اقدار، اسلامی روایات اور اسلامی ریاستوں کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔یہ بات بہرحال اپنی جگہ درست ہے کہ ایران عراق کی جنگ ہو یا افغانستان کا معاملہ ، امریکہ نے بڑی طاقت ہونے کے ناطے انصاف کیا نہ امن کے قیام کو اس طرح فروغ دیا جو وقت اور حالات کی ضرورت تھی۔ آج تک ایران دشمنی امریکی ذہن پر سوار ہے۔ عراق کی اٹھان اور افغان کے بناؤ میں تاحال امریکہ مطلوبہ حکمتِ عملی سے دور کھڑا ہے۔اس بات کو بھی بہرحال پسِ پشت نہیں رکھا جاسکتا کہ امریکہ کی تمام جنگوں میں، وہ وار اینڈ ٹیرر کے نام پر ہوں یا سرد جنگ کی شکل میں ، پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا رہا تاہم امریکہ ہر پاکستانی جنگ کی صورت میں نیوٹرل رہنے کا ’’شوق‘‘ پورا کرتا رہا۔ کبھی ایوب خان کے خلاف کہ 1965کی جنگ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف امریکی ہتھیار استعمال کیوں کیے جو امریکہ ہی سے ملے تھے کیونکہ ان ہتھیاروں کو انڈیا کے خلاف استعمال کرنے سے منع کیا گیا تھا ۔

کبھی ذوالفقار علی بھٹو کا مخالف کہ جب 1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو بھٹو نے پاکستانی پائلٹوں کو عربوں کی مدد کے لیے کیوں بھیجا؟ پھر ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی بھٹو دشمنی کا سبب بنی۔ کبھی ضیاء الحق کے سنگ سنگ صدر ریگن نے تمام معاشی پابندیاں ختم کرکے امداد کا منہ کھول دیا کہ روس سے براستہ افغانستان جنگ تھی ، نواز شریف سے صدر کلنٹن نالاں کہ ایٹمی دھماکے کیوں کئے۔ کہیں جنرل مشرف سے بغل گیری تو کہیں سی پیک سے نالاں نظر آنے والا امریکہ بظاہر اپنی جگہ پر خود غرض دکھائی دیتا ہے جب دیکھا یہ جاتا ہے کہ دہشتگردی میں پاکستان کی قربانیاں بےشمار تھیں۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ کی ورق گردانی کہتی ہے کہ، سن 1947 میں کابینہ کے ایک اجلاس میں بابائے قوم نے کہا ،’’ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، اور کمیونزم اسلامی ممالک میں نہیں پنپ سکتا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے مفادات روس کی بجائے امریکہ اور برطانیہ سے وابستہ ہوں گے۔“ لیاقت علی خان اس دوراہے پر جب پہنچے کہ روس کی دعوت قبول کی جائے یا امریکہ کی ، تو آخر کار وہ امریکہ کی طرف چل دئیے ، یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی تھی لیاقت علی خان کی خواہش نہیں۔ عہد حاضر کے تقاضے یہ کہتے ہیں کہ، خارجہ پالیسی کسی بھی ملک کی کبھی کسی دائمی دشمنی یا سدابہار یاری پر منحصر نہیں ہوتی۔ اس کیلئے کبھی ارتقا کو دامن میں اور کبھی ارتقا کی گود میں رہنا پڑتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی و انجینئرنگ میں پیش رفت کا تسلسل پہلا قرینہ ہے ترقی کے قرینوں میں، علاوہ بریں سماجی ہم آہنگی، روایات کی تقویت اور ادب کے در وا اور بستیوں کا آباد رہنا بھی ضروری ہے۔ ریاست یا قوم کو متوازن و متحرک ایکوسسٹم بنانا پڑتا ہے۔ خالی بانسری کبھی روح میں نہیں اترتی جب تک اس میں جذبات اور درد شامل نہ ہو۔ کسی بھی قوم اور معاشرے میں تمام سائنسزمیں تحقیق ضروری ہے حتیٰ کہ سوشل سائنسز میں بھی۔یہ ضروری ہے کہ تعصب آمیزی اور حقیقی لیڈر شپ کے درمیان لائن کھینچی جائے۔

پاکستان کو اکنامکس، اسلام کے عملی جامے، تحقیقی کلچر کے فروغ، زبانوں کے ہنر اور کسوٹی و پرکھ کے رستے ہی پر سکھ کا سانس ملے گا۔ گھر بیٹھے دشمنیاں نبھانے اور بنانے سے بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی، اس کیلئے ڈائیلاگ اور ذمہ دارانہ رویہ کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر نکلنا ہوگا۔ رختِ سفر باندھتے وقت آج انٹرنیشنل افیئرز کو تیل اور تیل کی دھار کی طرح سمجھنا ہوگا۔

بلاول بھٹو نے جس طرح سابق وزیراعظم کے روس کے دورے کا پالیسی میٹر کے طور پر دفاع کیا، یہ ایک اسٹیٹس مین کا اصلی روپ تھا۔ یہاں پر گندی سیاست اور ملکی وقارکو جس طرح ایک دوسرے سے دور رکھا گیا ، وہ بھی ’’عداوتوں اور سیاستوں‘‘ کے عروج کے دنوں میں، اسے راوی اور مورخ دیر تک یاد رکھیں گے۔ متذکرہ مختصر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا مگر اس میں بھی تو خوبی دیکھئے کہ پاکستان بھی بارہا بہادری سے کھیلا اور درپیش چیلنجوں کے باوجود جوہری توانائی بھی بنا۔ سو برابری کی سطح پر نہ سہی مگر برابری کی طرح کی روش اپنانے کی سعی تو ضروری ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے حالیہ امریکی دورے اور اور امریکی میڈیا سےگفت و شنید میں پاک امریکہ تعلقات کے بناؤ اور بڑھاؤ اور بڑائی کی بات کی ہے جسے عہد حاضر اور ماضی کے جھروکوں سے دیکھا جو قابلِ ستائش بات ہے۔ ہم امریکہ یا کسی ملک سے بلاوجہ یا بلا ضرورت دشمنی کیوں کرتے پھریں۔ اکیڈمک طریقے سے بھی امریکی ترقی کو دیکھنا چاہئے جو اپنی تعمیر و ترقی کیلئے مسلمانوں، یہودیوں، چینیوں اور یورپیوں کو ہنٹ کرتا ہے، جو روزگارکے مواقع دیتا ہے گر آتش و آہن دیتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی تعمیر و ترقی کیلئے علم و فضل کے گہوارے بغداد کی تاریخ کو بروئے کار لانا ہوگا ،محض طعنوں کے تیر چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کبھی یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ مغرب ہی ہماری برآمدات کی بڑی مارکیٹ ہے مگر برآمدات ضروری ہیں خالی سیاست نہیں ۔ خالی سیاست خالی ریاست کو جنم دیتی ہے جو خالی برتن کا شور تو کرسکتی ہے مقابلہ نہیں! عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی گیس لائٹنگ سے نہیں! دریاؤں، پربتوں، صحراؤں اور شاداب میدانوں کی یہ نظریاتی و جغرافیائی اہمیّت کی حامل سرزمین نوجوانوں کی کثرت رکھتی ہے سو اقبال کے شاہین تحقیقی پرواز والے تو ہوسکتے ہیں ڈرامے باز نہیں۔

تازہ ترین