• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ جنوری2007ءکے ابتدائی دن تھے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کے ایک حل پر متفق ہوچکے تھے۔ منموہن سنگھ پاکستان کے دورے کا فیصلہ بھی کرچکے تھے اور اس دورے میں وہ پرویز مشرف کے ساتھ مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے تھے لیکن اسی دوران مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کردیا۔ اس برطرفی کے ردعمل میںوکلاء تحریک شروع ہوئی اور یہیں سے مشرف کے زوال کا آغاز ہوا۔ منموہن سنگھ کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا اور ایک سال کے اندر اندر جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑگیا۔ ہفتہ کی دوپہر نیویارک میں اقوام متحدہ میں منموہن سنگھ کی تقریر کے بعد ایک بھارتی سفارتکار مجھے کہہ رہا تھا کہ اگر پرویز مشرف چیف جسٹس آف پاکستان سے پنگا نہ لیتے تو شاید ان کی حکومت اتنی جلدی ختم نہ ہوتی اور شاید وہ منموہن سنگھ کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر حل کرلیتے۔ میں نے بھارتی سفارتکار سے پوچھا کہ منموہن اور مشرف مسئلہ کشمیر کے کون سے حل پر متفق ہوئے تھے؟ بھارتی سفارتکار نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ دونوں رہنمائوں نے جموں و کشمیر کے دونوں حصوں پر مشترکہ کنٹرول کا ایک فارمولا بنالیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول کے آر پار جانے میں بہت سی سہولتیں دی جاتیں اور یہ لائن آف کنٹرول ایک سافٹ انٹرنیشنل بارڈربن جاتی۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ منموہن سنگھ اور مشرف الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے والے تھے؟ بھارتی سفارتکار نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا یہی ایک حل ہے جو بھارت کو قبول ہوسکتا ہے لیکن آپ کے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کردیا۔ بھارتی سفارتکار نے دعویٰ کیا کہ ہم نے بیک ڈور چینل سے شہریار خان کو پیغام دیدیا تھا کہ اگر آپ نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر کیا تو پھر29ستمبر کو نواز شریف اور منموہن سنگھ کی ملاقات میں کسی بریک تھرو کی توقع نہ کیجئے گا۔29ستمبر کو نواز شریف اور منموہن سنگھ کی ملاقات میں واقعی کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ منموہن کا خیال تھا کہ نواز شریف کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے ہے اور وہ کم از کم تجارت کے لئے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیدیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نیویارک میں موجود کئی بھارتی صحافیوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کو بہت یاد کیا اور کہا کہ اگر مشرف صاحب اقتدار میں ہوتے تو اب تک مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا اور پاک بھارت تجارت بہت آگے بڑھ چکی ہوتی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج منموہن سنگھ سے لے کر بھارت کے کئی نامور صحافی مشرف صاحب کو یاد کرتے کیوں نظر آتے ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔ بھارت کسی بھی صورت میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتا اور اپنی مرضی کا ایک حل کشمیریوں پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی حکومت مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ سودے بازی نہیں کرسکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے فوجی حکمرانوں پر اپنی مرضی کا حل ٹھونسنا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ فوجی حکمران عوام کوجوابدہ نہیں ہوتے۔ جنرل ایوب خان کے معاہدہ تاشقند سے لے کر جنرل مشرف کے اعلان اسلام آباد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں حکمران جنگ لڑے بغیر کشمیر پر سرنڈر کرنے کے لئے تیار تھے اس لئے بھارت کو پاکستان میں ایسا کوئی سیاسی حکمران اچھا نہیں لگتا جو مسئلہ کشمیر پر ا قوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرے۔
نیویارک میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بار بار ذکر منموہن سنگھ کو بہت ناگوار گزارا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کے لئے ا ستعمال کیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران بھی پاکستان پر سنگین الزامات عائد کئے۔ منموہن سنگھ بھول رہے تھے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ہوا جس میں بھارتی فوج کا ایک ریٹائرڈ کرنل ملوث تھا لیکن اسے سزا نہیں ملی۔ ان کے دور میں بھارتی فوج کا سربراہ جنرل وی کے سنگھ ایک خفیہ یونٹ کے ذریعہ پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے بناتا رہا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان کے کچھ نان سٹیٹ ایکٹرز نے بھارت میں اپنی عسکری کارروائیوں کے ذریعہ بھارت کو کم اور پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچایا اور ان نان سٹیٹ ایکٹرز کے احتساب کی ضرورت ہے لیکن ایسی ہی نان سٹیٹ ایکٹرز بھارت میں بھی موجود ہیں۔ بھارت اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور پاکستان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ نیویارک میں وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ بھارتی صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں میں واضح طور پر کہا کہ انہیں شک ہے پشاور اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کچھ حالیہ وارداتوں میں طالبان یا بی ایل اے نہیں بلکہ کوئی اور ملوث ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ پاکستان کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی ہم پرمسلط کرسکتا ہے۔ نواز شریف بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن انہوں نے واضح طور پر منموہن سنگھ کو یہ پیغام دیا کہ امن کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کا بھرپور انداز میں ذکر کردیا کہ منموہن سنگھ غصے میں پاگل ہوگئے اور صدر اوباما کے سامنے پاکستان کے خلاف شکائیتوں کا دفتر کھول دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اوباما کے ہاتھ میں کوئی ریموٹ کنٹرول ہے جس کا بٹن دبا کر وہ نواز شریف کو کشمیر کے ذکر سے روک دیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ نواز شریف نے منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات تو کی لیکن یہ ایک الوداعی ملاقات تھی۔ منموہن سنگھ چند ماہ کے بعد بھارتی وزیر اعظم نہیں ہونگے۔ اب وہ ایک کتاب لکھیں گے جس میں اپنی اور جنرل مشرف کی ناتمام حسرتوں کا نوحہ لکھیں گے جبکہ نواز شریف بھارت میں آئندہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کے ساتھ امن کی نئی کوششوں کا آغاز کریں گے۔
تازہ ترین