• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے خاتمے اور پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کو پانچ ہفتے مکمل ہوچکے ہیں لیکن سابقہ حکومتی پالیسیوں، کووڈ کی وبا اور روس یوکرین تنازع کے سبب عالمی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث قومی معیشت کی روز افزوں زبوں حالی کو روکنے کیلئے مشکل مگر ناگزیر فیصلوں کے حوالے سے حکومت اب تک تذبذب کی کیفیت میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ غیرضروری درآمدات پر پابندی اور سولر پینل پر 17 فی صد جی ایس ٹی کا خاتمہ یقینا اچھے فیصلے ہیں لیکن پچھلی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانے والی شرائط کی تکمیل کیلئے پٹرول اور ڈیزل پر دی گئی سبسڈی ختم کرنے جیسے غیرمقبول اقدمات اب تک سوچ بچار ہی کے مرحلے میں ہیں۔ گزشتہ روز بھی ان حوالوں سے پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کے درمیان اہم تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نیز گفتگو میں شریک اتحادی جماعتوں کے کئی دوسرے رہنماؤں اور وفاقی وزراء نے معیشت کو سنبھالنے کیلئے ضروری اقدامات پر اتفاق کیا ۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی مشاورت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ، مہنگائی، ڈالر کی بڑھتی قیمت، آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی قسط ملنے پر اگلے عام انتخابات مدت پوری ہونے کے بعد کرانے کی تجویز ، انتخابی اصلاحات کیلئے آئینی اور قانونی ترامیم کے معاملات ، آئی ایم ایف سے قرضہ نہ ملنے کی صورت میں لائحہ عمل اور پنجاب اسمبلی کے 25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے اور اسمبلی میں نمبر گیم کی حکمت عملی پرغور کیاگیا جبکہ اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اتحادی حکومت عوامی ردعمل کے اندیشے کے باعث تیل کے نرخ بڑھانے اور ایسے ہی دیگر فیصلے کرنے سے گریزاں ہے ۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہیں جب فیصلوں کی ذمے داری میں ریاستی ادارے بھی شریک ہوں اور حکومت کو آئینی مدت کی تکمیل تک قائم رہنے کی ضمانت دی جائے تاکہ اسے حالات کو بہتر بنانے کا وقت مل سکے۔ ایک سیاسی حکومت کا یہ رویہ یقینا قابل فہم ہے کیونکہ اسے انتخابات میں عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔ قومی بقا اور سلامتی کی خاطر ریاستی ادارے ان فیصلوں کی ذمے داری میں شریک ہوں تب ہی حکومت غیر مقبول اقدامات پر تیار ہو سکتی ہے لیکن عملی صورت حال ایسی نظر نہیں آتی۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے قطعی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اپنی حکومت کا موقف ان دوٹوک الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ’’ ادارے سپورٹ کریں تو مسائل سے نکل سکتے ہیں،پتا نہیں تھا عمران کو نکالنے کے بعد ہمارے ہاتھ پائوں باندھ دیئے جائیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو ہر طرف سے سپورٹ ملے تو وہ ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں، اگر ہمارے ہاتھ پائوں باندھے گئے تو ہوسکتا ہے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر عوام کے پاس جائیں۔ ہم اپنے اتحادیوں کو سرپرائز نہیں دیں گے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے سے روکا گیا تو جو ذمہ دار ہیں انہیں بھگتنا پڑے گا، ہمارے خلاف چار سال تک ظلم اور زیادتی کا سلسلہ چلتا رہا، چیف جسٹس پاکستان اس پر بھی نوٹس لیں۔‘‘ وزیر داخلہ کا یہ شکوہ بظاہر بجا ہے ۔ ان حالات میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا فوری انعقاد ناگزیر ہوگیا ہے جس میں ادارے غیرمقبول فیصلوں کی ذمے داری میں شرکت کی قابل اعتماد ضمانت دیں اور حکومت کے آئینی مدت کی تکمیل تک جاری رہنے کی پختہ یقین دہانی کرائیں بصورت دیگر حکومت کیلئے ناگزیر فیصلے کرنا ممکن نہیں ہوگا اور بہتر ی کے امکانات خدانخواستہ بالکل معدوم ہوجائیں گے۔

تازہ ترین