• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان وہ خوش قسمت مخلوق ہے جس کی مٹھی میں اُمید کا جگنو ہر لمحہ جگمگاتا رہتا ہے۔ روشنی کا ساتھ اُسے ایسی طاقت اور اعتماد بخشتا ہے کہ وہ مشکل ترین راستوں پر بھی سفرکا آغاز کرنے کی ہمت باندھ لیتا ہے۔ اُمید کی روشنی ظاہر اور باطن دونوں پہلوئوں کو منور کرتی ہے۔ بے چین انسان کبھی اس کو روحانی طاقت بنا کر باطن کی تاریکی اور اُداسی کو کم کرتا ہے اور کبھی ظاہر کی ویرانیوں میں خوشی کے رنگ بھرتا ہے۔ اُمید کا ساتھ جدوجہد ترک کرنے، مایوس ہونے اور ہارنے نہیں دیتا۔ اُمید ایک سحر انگیز خواب کی مانند ہے۔ ایسا خواب جس میں ہمارے لئے ایسے منظر ذہن کے کینوس پر اتارے جاتے ہیں جو ہم حقیقی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے حال اور مستقبل کے منصوبوں کا خاکہ ہوتا ہے جو ہمارے ارادے کو متحرک کر کے ہمیں جدوجہد پر اُکساتا ہے۔

پاکستانی قوم گزشتہ پون صدی سے سوئی جاگی آنکھوں سے اچھے دنوں کے خواب دیکھنے پر مامور ہے۔ اس کی توقعات اور خواہشات آئینی، جمہوری اور انسانی معاشرے کے قیام کی طلبگار ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل سفرکا آغاز کرنے والی آنکھوں کے دِیے اب ٹمٹمانے لگے ہیں جب جب ان دِیوں کو آنسوئوں کی نمی اور آہوں کی ہوا بجھانے لگتی ہے تو حیلہ کرنے والے پلکوں کی جالی سے دِیے کو محفوظ کر لیتے ہیں اور حالات کی سنگینی کے باوجود نئی اُمید کے سہارے نئے خواب بُننے لگتے ہیں۔ حالات کا تسلسل بھی ایک سا رہتا ہے بس منظرنامے اور مکالموں میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

پاکستان مختلف موسموں، رُتوں اور خوبصورتیوں کی سرزمین ہے۔ آج کل بے یقینی کی رُت اور گومگو کا موسم ہے۔ پہلے بھی یہ موسم حملہ آور ہوتا رہا ہے مگر آج ہر شے پر خدشات کا سایہ ہے۔ ہر خبر کے باطن میں خوف سرایت کئے ہوئے ہے۔

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

سماعتیں نامانوس آوازوں کی چیخ و پکار سے گھبرائی ہوئی ہیں۔ زندگی کا چمن نامہربان فضا کے باعث اُداسی کی گرفت میں ہے۔ ہر لمحہ نئی پریشانی، نیا چیلنج اور نیا سوال لے کر طلوع ہوتا ہے۔ بڑا سٹیج سرکس بنا ہوا ہے۔ ہدایت کار نظروں سے اوجھل ہیں مگر تماشائیوں کا شعور اور تجربہ اس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ اُس نے پس منظر میں بیٹھے ہوئے چہروں کے بارے میں صحیح اندازے لگانے شروع کر دیئے ہیں۔ سیٹ اپ کے حرف سکّوں کی طرح اُچھالے جا رہے ہیں۔ ایک ہی دن میں سیٹ اپ سے اَپ سیٹ تک کا کھیل شروع ہو کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

نظامِ زندگی کو گرمی، بجلی اور گندے پانی نے مفلوج بنا رکھا ہے۔ شیر خوار بچوں سے لے کر جوانوں اور بزرگوں تک بڑی تعداد میں لوگ ہیضے، لُو کے بخار اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اسپتالوں میں خالی جگہ مفقود ہو گئی ہے۔ پچھلے تجربات کے خوفناک نتائج کے باوجود نت نئے تجربات کرنے کی رسم زوروں پر ہے۔ ملک عجیب لیبارٹری بنا ہوا ہے۔ اہل دانش ملک کی آئینی اور جمہوری روایتوں کی پامالی پر فکرمند ہیں تو عوام مہنگائی کے باعث بِلک رہے ہیں۔

ا سٹیج منیجر بظاہر غیر متحرک اور لاپروا نظر آتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک ٹیم کی رخصتی کے بعد اسٹیج کو کلیئر کر کے دوسرے فریق کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہے۔ جس نے ملک کی ڈوبتی معیشت کو منجدھار سے نکالنا ہے، کے رستے میں خاردار رکاوٹیں جوں کی توں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ جسے آزادی سے حرکت کرنے کی اجازت نہیں وہ بھاگ دوڑ کس طرح کرے۔ اتحادیوں اور پارٹی قیادت سے مشاورت کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ بگڑی چیزیں سنورنے کی بجائے مزید بگڑنے لگی ہیں۔ ہر معاملے پر مشاورت کے سیشن کی بجائے وزیراعظم کو کھل کھیلنے کی اجازت دیں۔ ہمیں کسی جماعت کی نہیں اس ملک کی فکر ہے، اس کے وقار کی فکر ہے اس لئے حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ نامہربان آوازوں، نعروں اور تنقید پر توجہ کی بجائے چیف ایگزیکٹو اس رفتارسے کام کا آغار کرے جو اس کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

یہ عمل دل کی لگن اور کمٹمنٹ کا متقاضی ہے۔ ایک بار ملکی معیشت کی گاڑی کو دلدل سے نکال کر سڑک پر رواں کر دیں پھر باقی کاموں پر توجہ دیں۔ لوگوں کو ریلیف صرف اس ہی صورت مل سکتا ہے۔ عمل کا وقت ہے کسی کی راہ دیکھنے، اشارے سمجھنے اور ہمدردی کے انتظار کا نہیں۔ متفکر لوگوں کے چہروں پر اب ناامیدی کے آثار صاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ بے یقینی کے دھوئیں نے تمام منظر دھندلا دیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت بے بسی اور بے حسی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ لوگ نہ کُھل کر ہنستے ہیں نہ روتے ہیں ۔ بقول شاعر

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

حکومت کو لوگوں کو اِس کیفیت سے نکالنا ہے کیونکہ پاکستانی قوم میں دوبارہ اُبھرنے اور چھا جانے کی صلاحیت ہے۔ وزیرِاعظم صاحب دنیاوی سہاروں اور رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے رات کے پچھلے پہر خدا کے حضور گڑگڑائیں اور عمل کا اعادہ کریں۔ خدمتِ خلق اور ملک کے وقار کو نصب العین بنا کر شب و روز ایک کر دیں۔ وہ وسیلے بنانے والا یقیناً نئے راستے اور نئی آسانیاں عطا کرے گا۔ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ کوئی صدق ِدل سے مانگے اور اس کی مراد پوری نہ ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ صدقِ دل اور خلوص نیت سے مانگا جائے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین