• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

ضلع میرپور خاص میں جھڈو، ڈگری، شجاع آباد اور حسین بخش مری، یہ چاروں تحصیلیں زرعی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ یہاں باغات کے علاوہ فصلیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ڈگری اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس تحصیل میں شوگر مل بھی ہے یہ میر پور خاص کے بعد ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے اس میں بھی سماجی سطح پر بہت خوشگوار ماحول ہے یہاں کے لوگ سندھی کلچر اور صوفی کلچر کو مدنظر رکھتے ہیں۔یہاں کسی کی جرأت نہیں کہ کسی کی توہین کر سکے۔یہاں سندھی، اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں بزرگوں کا احترام ہر کوئی کرتا ہے یہ تمام لوگ مختلف بولیاں بولتے ہوئےایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ڈگری شہر کے مسائل کے حل کیلئے یہاں کے لوگ ایک خاندان کی طرح کام کرتے ہیں یہاں رانا، قائم خانی، آرائیں، پنجابی، پشتو بولنے و الے قبائل جیسے یوسفزئی مگر یہاں ذات اور نسل کے علاوہ مذہب کی بنیاد پر بھی کسی کو ممتاز نہیں سمجھا جاتا۔یہاں کی سیاست پر تالپور چھائے ہوئے ہیں مگر یہ تمام لوگ اس طرح رہتے ہیں کہ یہاں جرم نہیں ہوتا۔ تعلیمی اعتبار سے میر پور خاص کے بعد شرح خواندگی ڈگری میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈگری میں پاکستان بننے سے پہلے اسکول قائم ہو چکا تھا اب وہاں بہت سے تعلیمی ادارے ہیں یہاں رائس ملز بھی ہیں ڈگری کا نام مائی ڈگھی کی نسبت سے ہے مائی ڈگھی دراز قد اور باوقار شخصیت کی حامل خاتون تھیں۔سندھ کے حکمران میاں سرفراز کلہوڑو کے نام سے منسوب ’’سرفراز واہ‘‘ کے گھاٹ یعنی پتن سے مسافروں کو بلامعاوضہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے لے جاتی تھی ’’سرفراز واہ‘‘ کے قریب ہی ایک چھوٹا سا قصبہ آباد تھا اس میں سونے کی تجارت کے لیے ایک سنہری بازار تھا میر محمد خان نامی مشہور ڈاکو نے ایک دن اپنے گروہ کے ہمراہ سنہری بازار پر حملہ کیا اور یہاں کے تاجروں کا سارا مال لوٹ لے گیا۔اس واقعہ سے دلبرداشتہ ہو کر سنہری بازار کے تاجر اس علاقے کو خیرباد کہہ کر جنوبی افریقہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ جو لوگ یہاں رہ گئے وہ بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اس مرحلے پر مائی ڈگھی نے ڈاکوئوں کا مقابلہ کرکے پورے گروہ کا خاتمہ کیا یوں اس جگہ کا نام ڈگری پڑ گیا۔ برطانوی دور میں ڈگری کا علاقہ تحصیل دیر محبت خان ضلع حیدرآباد میں شامل تھا۔1903میں حیدرآباد سے الگ کرکے تحصیل کا درجہ دیا گیا۔1909میں ڈگری کو ریل کے نظام سے منسلک کر دیا گیا۔ڈگری شہر کے قلب میں محمدی چوک سے پانچ سڑکیں مختلف علاقوں کو جاتی ہیں یہ سڑکیں ٹنڈو غلام علی، ٹنڈو باگو، کوٹ غلام محمد اور ٹنڈو جان محمد کی طرف جاتی ہیں۔ 1910میں حکومت نے مشرقی پنجاب سے کاشت کاروں کو لاکر ڈگری کے آس پاس آباد کیا ڈگری کے قریب ہی حروں کا ایک بڑا گائوں فقیر غلام علی لغاری واقع ہے۔ ڈگری میں آباد کئے گئے جاٹوں، سکھوں اور آرائیوں نے یہاں کی کاشت کاری میں رنگ بھرا۔قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی بیرسٹر غلام محمد بھرگڑی کا تعلق اسی شہر سے تھا، انہوں نے یہاں پہلی کاٹن فیکٹری لگائی تھی۔ تحریک پاکستان میں مقدمات انجام دینے والے ممتاز مسلم لیگی فاروق مصطفیٰ مرحوم اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کا تعلق ڈگری کے دیہہ نمبر 202 سے تھا۔ ممتاز روحانی بزرگ سید محمد شاہ جیلانی کا مزار اسی شہر میں ہے۔ بالا کوٹ میں شہید ہونے والے سید احمد شہید دہلوی اور سیداسماعیل شہید جہاد کرنے کےلیے اس شہر سے گزر کر گئے تھے۔ ڈگری شہر کی خواتین گھروں میں دست کاری کا ہنر جگاتی ہیں اس شہر میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔اقلیتوں کی بڑی تعداد ہریجن محلے میں آباد ہے شام کو دریا کی ٹھنڈی ہوائیں راحت بخشتی ہیں یہاں آنے والے سیاح خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں یہاں کی جلیبیاں پورے علاقے میں مشہور ہیں۔

عمر کوٹ، میرپور خاص ڈویژن کا اہم ضلع ہے اس کے بیشتر علاقے صحرائے تھر پر مشتمل ہیں اس کے شمال مشرق میں بھارت، شمال میں ضلع سانگھڑ، مغرب میں ضلع میر پورخاص اور جنوب میں ضلع تھرپارکر ہے۔ ضلع عمر کوٹ میں چار تحصیلیں یعنی تعلقے ہیں ان میں کنری، سامارو، پتھورو اور عمرکوٹ شامل ہیں۔عمر کوٹ کے نام سے متعلق دو آرا پائی جاتی ہیں چند ماہرین اسے راجپوت سومرو بادشاہ عمر سومرو کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور چند ماہرین اسے رانا امر سنگھ کے نام سے امر کوٹ کہتے ہیں۔ (جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین