• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ریاست کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے، خواجہ آصف

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئےوزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم ریاست کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے ریاست کو بلیک میل نہیں ہونے دینا چاہئے چاہے اس کی جتنی بھی قیمت ہو،معیشت کی جان بچانے کیلئے ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے، اس سے مہنگائی بھی ہوگی.

 اس سے مشکلات میں اضافہ ہوگا،سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ جس طریقے سے عمران خان نے معاملہ کو چھوڑا ہے تو شاید تاریخ کا سخت ترین بجٹ ہوگا.

ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کافی حد تک خودمختار اورپروفیشنل ہوگیا،مہربخاری نے کہا کہ دھرنوں کی تاریخ سے تو پتا نہیں چلتا کہ آپ کوئی حکومت گرادیں گے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کی وجہ سے آپ لوگوں نے مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کہیں حکومت جانے کا کریڈٹ عمران خان کو نہ چلا جائے؟

خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے ساری کہانی بیان کردی میرے کہنے کیلئے کچھ نہیں چھوڑا ہے، کہانی کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا سیاسی لاجک بیان کروں گا، اگر ہم کل چلے جاتے جیسے آپ بتارہے تھے کہ 24, 25 یا 26 تاریخ کو ہمارا جانے کا خیال تھا تو وہ عمران خان کے دھرنے کے ساتھ نتھی ہوجاتا، ہمارا سیاسی کیپٹل بہت depeate ہوتا کہ ایک شخص نے دھرنا دیا، اس کا 126دن کا دھرنا تو ہم نے برداشت کرلیا، اللہ کے فضل سے اس دھرنے سے سرخرو ہو کر نکلے.

 اس کے بعد پانچ سال حکومت بھی کی مگر اب یہ چار پانچ دن کے دھرنے پر ہم ڈھیر ہوگئے ہیں، یہ سیاسی طور پر بالکل affordable نہیں تھا، یہ چیز ہمیں اور ہمارے اتحادیوں کو سامنے نظر آرہی تھی اور میڈیا بھی کم و بیش اسی طرف بار بار اشارہ کررہا تھ.

وہ تو ایک دباؤ تھا یہ فیصلہ جلد یا بدیر ہونا تھا لیکن میں آپ کی بات کی تائید کرتا ہوں کہ ہم نے ایک مرحلہ پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم مشکل فیصلے جن سے عوام کو دقت پیدا ہو، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو ہم وہ فیصلے نہیں کریں گے اور جو سیاسی نقصان ہوگا اس سے بچیں گے اور ہم فوری طور دو چار پانچ دس دن کے اندر اسمبلی تحلیل کردیں گے، کل یا پرسوں کی بات ہے یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے، لیکن ساری سوچ بچار کے بعد کہ ایک ریاست کو بلیک میل نہیں ہونے دینا چاہئے چاہے اس کی جتنی بھی قیمت ہو، اگر ایک دفعہ ریاست بلیک میل ہوگئی تو وہ روایت بن جائے گی جو پھر کبھی توڑی نہیں جاسکے گی.

 میاں نواز شریف نے یہ روایت توڑی 126دن کا جو محاصرہ تھا، کہہ سکتے ہیں انہوں نے دارالحکومت کا ڈی چوک پرمحاصرہ کیا تھا، اس محاصرے میں سرکاری ٹی وی بھی شامل تھا، پرائم منسٹر ہاؤس بھی شامل تھا، پارلیمنٹ کی بلڈنگ بھی شامل تھی اور وہ محاصرہ اللہ کے فضل سے ہم جو اسمیں محصور لوگ تھے انہوں نے برداشت کیا اور سرخرو ہوئے، یہ سارا کچھ سامنے رکھ کر ہم نے دیکھا، ایک اور بھی اس میں argument ہے ، ایک سیاسی کیپٹل ہے اور ایک ریاست کا کیپٹل ہے، ریاست کا کیپٹل ذاتی سیاسی کیپٹل پر فوقیت رکھتا ہے.

 یہ بھی ایک وجہ بنی کہ فیصلے یہ رخ اختیار کریں، میں نے یہ argument دیا بھی ہے، میں نے آٹھ دس روز پہلے فوری انتخابات کی بات بھی کی تھی تو اس پر مجھے اپنی پارٹی کی طرف سے مزاحمت کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا نہ میرے اوپر نکتہ چینی ہوئی تھی، میرا اپنا ایک نکتہ نظر تھا جو میں نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں پیش کیا.

 اس کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ دو سچویشنز ہیں، ایک سچویشن یہ ہے کہ ہم مشکل فیصلوں کو postpond کردیں تاکہ ہم کسی نہ کسی طرح اپنا سیاسی کیپٹل محفوظ کرلیں، دوسرا یہ ہے کہ مشکل فیصلے کریں تاکہ بعض اوقات آپ کے کوئی عزیز رشتہ دار بیمار ہوں تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں.

 ان میں رسک بھی ہوتا ہے لیکن جان بچانے کیلئے آپ کو یہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں لیکن اس وقت ہماری معیشت کی جان بچانے کیلئے ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے، اس سے مہنگائی بھی ہوگی، اس سے مشکلات میں اضافہ ہوگا لیکن جو دوسرا آپشن ہے کہ اگر ہم کچھ بھی نہ کریں تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، جس طرح ایک مریض کی جان بچانے کیلئے رسکی آپریشن نہ کیا جائے۔

ایک سوا ل کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ معاشی فیصلوں کا تعلق ساری ریاست کے ساتھ ہوتا ہے اس میں ادارے بھی شامل ہوتے ہیں، جس طرف آپ اشارہ کررہے ہیں اس میں ہمارے دفاعی ادارے بھی شامل ہیں، اس میں بیوروریسی بھی شامل ہے، سب لوگ اس میں شامل ہیں، یہ جو ہماری معاشی یا اکنامک سچویشن ہے ۔

اہم خبریں سے مزید