• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے معاشی حالات میں اب بین الاقوامی حالات اور معاملات کے تناظر میں دن بدن بہتری کی امید پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ گو کہ سیاسی اور انتظامی طور پر حکومت کی پورے نظام پر وہ گرفت نہیں ہوسکی جو کہ اصولی طور پر ہونی چاہئے تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو شاید یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ پہلی بار وزیر اعظم میاں نواز شریف نئے آرمی چیف کی تقرری اور چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کے معاملہ کو بڑی احتیاط سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی محفلوں میں آج کل دو امور زیر بحث ہیں اور ہر کوئی اپنے اپنے اندازے پر کسی کے آنے یا جانے پر اپنی ماہرانہ رائے دے رہا ہے مگر چار یا چھ شخصیات کے سوا شاید کسی کو آنے والے چار چھ ہفتوں کے نقشے کا علم نہیں ہے جس کی بنیاد پر موجودہ حکومت2014ءکا آغاز کریگی اور اس وقت وہ ملک اور عوام کے لئے کیا کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال تو بجلی اور دیگر سروسز کے دن بدن بڑھتے ہوئے نرخوں پر عوام پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ سے بھی حکومت اور عوام دونوں پریشان اور متفکر نظر آرہے ہیں ۔ حالیہ آٹھ دس سال کی اقتصادی مشکلات کے پس منظر میں حکومت نے اپنے اقتصادی ایجنڈے پر عملدرآمد کا آغاز تو کردیا ہے مگر اس کے فوائد ان کی حکومت کودوسرے سال یا اس کے بعد ہی مل سکیں گے ۔فی الحال تو ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ڈالر کا ریٹ تو ایک سے زائد وجوہ کی بناء پر بڑھ رہا ہے جس سے لامحالہ کرنسی کی قیمت میں کمی ہورہی ہے اور اس سے پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کے سود کی شرح اور واپسی کی لاگت میں پریشان کن حد تک اضافہ ہورہا ہے۔دوسری طرف درآمدی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ کئی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ حکومت نے سرکلر ڈٹ کو کم کرنے کے لئے اسٹیٹ بنک کے توسط سے125ملین سے 150ملین ڈالر کے ڈالر مارکیٹ سے خریدے، کسی جگہ اسےحج و عمرہ کے اخراجات سے لنک کیا جارہا ہے اور کئی حلقوں میں سونے کی درآمدی ڈیوٹی پر عائد ڈیوٹی کے ساتھ اس کا تعلق جوڑا جارہا ہے جبکہ سوچنا تو اس بات پر چاہئے کہ کہیں چند ماہ کی اس حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کسی بین الاقوامی ا یجنڈے کے تحت تو یہ سب کچھ نہیں کیا جارہا۔ جبکہ دہشت گردی سے حوالے پورے پاکستان کو تباہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے مختلف حصوں میں تباہی اور بربادی کے حالات ہم سب کو پریشان کررہے ہیں۔ پشاور میں چرچ پر حملہ کے بعد تو نیویارک ٹائمز میں ایک امریکی صحافی نے لکھا کہ چرچ پر حملہ عملاً پاکستان پر حملہ ہے۔ یہ سب کسی ایسے منصوبے کے تحت ہوا ، وہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ نیویارک کے سارے پلان کو خراب کردیا جائے،جو وقتی طور پر ہوا بھی۔ امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کا رسمی اہتمام نہ ہونا کوئی اچھا شگون نہیں ہے مگر دوسری طرف اگلے ماہ امریکہ کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کو وائٹ ہائوس دورے کی دعوت ملنے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک پاکستان ایران کے ساتھ گیس کے معاملہ اور افغانستان کے حوالے سے اپنے اصولی موقف میں لچک پیدا کرچکا ہوگا۔ اس صورتحال کے حوالے سے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ جیسے پاکستان میں دن بدن امن و امان اور سیکورٹی کے حالات خراب کئے جارہے ہیں اسی طرح اب اقتصادی طور پر پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
اس بارے میں وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے۔ اہم قومی امور کو غیر سیاسی انداز میں زیر بحث لاکر صرف اور صرف اقتصادی شعبہ کی بہتری کے لئے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ جن حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ ڈالر اور ڈار دونوں اوپر جارہے ہیں یعنی ڈالر قیمت کے لحاظ سے اوپر جارہا ہے اور اسحاق ڈار اپنی سیاسی بصیرت کے ساتھ آگے جارہے ہیں مگر اس کا فائدہ عوام کو بھی تو ہونا چاہئے جو نئی حکومت سے بڑی امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمران عوام کی بنیادی مشکلات دور کرنے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس کے لئے گورننس کا مضبوط نظام رائج کریں۔ ہر کام میرٹ پر کرنے کی عادت ڈالیں، اگر وہ عوام کے لئے اچھا سوچیں گے تو پھر عوام بھی ان کے لئے اچھا ہی سوچیں گے ورنہ عوام پیپلز پارٹی والا بدلہ ان سے بھی لے سکتے ہیں۔ اس لئے معاشی شعبے کی بہتری کے لئے وہ اقدامات کریں جو عوام کو سمجھ آسکیں اور ان سے عوام کو تکلیف نہیں، ریلیف مل سکے۔
تازہ ترین