• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس لانگ مارچ کا بڑا شور تھااور عمران خان کے بقول وہ 20لاکھ لوگوں کا سیلاب اسلام آباد لا رہے تھے۔

 دنیا نے ایک دن میں دیکھ لیا کیا کچھ ہوا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پنجاب کو ایسا لاک کیا کہ پی ٹی آئی کے کئی لیڈربھی مارچ میں شریک نہ ہو سکے۔

 لاہور سمیت پورے پنجاب کے عوام نے مذکورہ مارچ کو پذیرائی نہیں بخشی۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر لاہور میں بمشکل دو ڈھائی ہزار لوگ باہر نکلے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب سے قافلہ تو کیا دس بندے بھی نظر نہیں آئے۔ بعض پی ٹی آئی رہنمائوں نے اسلام آباد آنے کی کوشش کی لیکن نہیں پہنچ سکے۔

 ن لیگ کے ذرائع کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنمائوں نے خود گرفتاری کی خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال پنجاب کے لوگوں نے اس لانگ مارچ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ صرف کے پی سے لوگوں نے مارچ میں شرکت کی اور ذرائع کے مطابق کے پی کے میں گزشتہ آٹھ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود وہاں سے مارچ کے شرکاء کی تعداد 20سے 25 ہزار کے درمیان تھی۔

 ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ عمران خان مارچ میں شرکاء کی تعداد سے بہت مایوس ہوئے زیادہ مایوسی تب ہوئی جب ان کو پتہ چلا کہ پنجاب سے چند لوگ ہی مارچ میں شامل ہونے کے لیے آئے اور اکثر رہنما غائب رہے۔

اسلام آباد میں عمران خان کے بلین ٹری منصوبے کو مشہور کرنےکیلئےپی ٹی آئی والوں نے درختوں کوہی جلادیا۔ بلوائیوں کو کھلی چھٹی ملی تو وہ پولیس اور رینجرز کے جوانوں پر حملہ آور ہوئے۔

پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی۔ 27سے زائد پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو زخمی کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ عدالتی حکم کو روندتے ہوئے عمران خان کے کنٹینر سے بار بار اعلانا ت ہوتے رہے کہ کارکن ڈی چوک پہنچیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم کی یہ کھلی خلاف ورزی تھی۔ بلکہ یہ س

راسر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ ویسے عمران خان نے نہ تو کبھی آئین اور قانون کا احترام کیا ہے اور وہ نہ ہی اپنے محسن کے کسی احسان کو خاطر میں لائے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اسی طرح کےواقعات لاہور اور کراچی میں بھی ہوئے۔

 پی ٹی آئی کے چند مخصوص صحافیوں اور میڈیا ہائوس کے باقی کسی صحافی یا میڈیا ہائوس کو برداشت نہیں کیاگیا۔ گزشتہ روز بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں صحافیوں، صحافتی دفاتر اور ڈیوٹی پر مامور کیمرہ مینوں تک پر تشدد اور پتھرائو کیاگیا۔

کراچی میں خاتون صحافی کے ساتھ نہ صرف انتہائی بدتمیزی کی بلکہ ان پر اور ان کی ٹیم پر تشدد بھی کیاگیا۔

اس ساری بربادی کا نتیجہ کیا نکلا۔ کچھ بھی نہیں البتہ مذکورہ نام نہاد ’’آزادی مارچ‘‘ سے عمران خان کی سبکی ہوئیبلکہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ ہوا۔ لیکن اس شور و غوغا میں مقبول و بہادر کشمیری رہنما یاسین ملک کی ناجائز اور غیر قانونی سزا کا معاملہ دب گیا۔

افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ کشمیر کے سفیر کا دعویٰ کرنے والے نے اس سزا کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے جو معاملات 25مئی کو طے ہونا تھے، وہ بھی التوا کا شکار ہوگئے، اسکولوں میں بچوں کے جاری امتحانات معطل ہوئے۔

کوئی تو یہ پوچھے کہ آخر عمران خان کا ایجنڈا کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ گزشتہ روز کے واقعات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی ترقی، سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور قوم کی خوشحالی کے بجائے صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ ان کا مطمح نظر بہرصورت حصول اقتدار ہے۔ موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ حکومت کس کی ہو؟ مقصد تو ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی ہونا چاہئے۔

 لانگ مارچ بھی ہوا اور نتائج بھی ظاہر ہوئے۔ یہ اب عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس پر کیا ایکشن لیتی ہے؟ مولائے کائناتؓ کا فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔

 امید ہے کہ سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ عمران خان نے اب چھ دن کا الٹی میٹم دے کر مارچ سے جان چھڑالی ہے۔

 حالانکہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن چلیں فیس سیونگ کے لیے عوام کو کچھ کہنا بھیتو ہوتا ہے۔ ورنہ چھ روز بعد بھی تو یہی کرنا ہے جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔

حکومت اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے کہ وہ باقی مدت پوری کرے گی اور ابھی ایسی کوئی بات زیرغور نہیں ہے کہ قبل از وقت الیکشن کرایا جائے۔ ابھی تو حکومت کے راستے کھلنے والے ہیں۔

 اگلے ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ا س کے علاوہ تین چار ممالک سے امداد اور آسان شرائط پر قرضے ملنے کی بھی مضبوط امیدیں ہیں۔ ان ممالک سے امداد اور قرضوں کی راہ میں ابھی تک رکاوٹ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے، جو جلد پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے۔

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط سے عام آدمی اور تاجر برادری اس لیے متاثر نہیں ہوگی کہ دیگر ممالک سے ملنے والی امداد اور آسان شرائط پر ملنے والے قرضوں سے اس معاملے میں کافی حد تک سپورٹ مل جائے گی۔

 علاوہ ازیں کچھ ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر نظرثانی اور نئے معاہدوں سے برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کے لیے بھی رابطے ہورہے ہیں۔ زراعت کے شعبے کی ترقی اور کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی غور کیا جارہا ہے۔

ذرائع کے مطابق ان حکومتی اقدامات سے معاشی صورتحال میں بہت جلد قابلِ ذکر بہتری نظر آنی شروع ہو جائے گی۔ امریکی ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنے اور اسٹاک ایکسچینج کی صورت حال بہتر بنانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ میں ایک بار پھر شیر کشمیر یاسین ملک کو بھارت کی طرف سے غیر قانونی اور جابرانہ سزا دینے کی پُرزور مذمت کرتا ہوں اور یہ ہر پاکستانی کا فرض بھی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین