• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی سال کے اختتام پر پاکستان کے سماجی و اقتصادی حالات کی تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کورونا کے تباہ کن اثرات کے بعد معیشت کی بحالی حوصلہ افزا رہی۔ ورلڈ بینک میں پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر مسٹر ناجی نے کھلے دل سے قبول کیا کہ پاکستان کی معیشت نے کوویڈ کے دوران غیرمعمولی لچک کا مظاہرہ کیا، جو اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہارہے۔ 2022پرانے اور نئے چیلنجز لے کر آیا۔ بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی ہچکولوں نے شدید طوفان کو جنم دیا ہے لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ تاحال نہیں لگایا جا سکتا، پاکستان کو صرف اپنی ترجیحات کا تعین کرنے، ایک متفقہ نقطہ نظر اپنانے اور تمام شعبوں میں معاشی بحالی کی طرف جارحانہ انداز میں پیش قدمی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک کا سب سے بڑا اقتصادی چیلنج اس کے بڑے تجارتی خسارے ہیں جو 1950سے تجارتی نظام کا حصہ ہیں۔ پاکستان نے ابتدا سے ہی بیرونِ ممالک خاص طور پر چین سے سستی اشیا کی درآمد کی اجازت دے کر اشیا کی مقامی مانگ کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ کئی دہائیوں کے دوران، ان اشیا کی درآمد کی اجازت نے قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ سینکڑوں پروڈکٹس کے لیے مقامی صنعتوں اور مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی گئی، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور غیرہنر مند مزدوروں کو نیم ہنر مند یا انتہائی ہنرمند میں تبدیل کرنے کے امکانات کو معدوم کر دیا گیا۔ افرادی قوت اور تجارتی درآمدات، قومی معیشت پر مسلسل بوجھ بنی ہوئی ہیں اور پُرتعیش اشیا کی درآمد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے جان لیوا ہیں۔ ملک کے درآمدی بلز میں سرفہرست آئل اینڈ گیس، خام مال، زرعی اشیا، خوردنی تیل اور مشینری شامل ہیں، درست حکمتِ عملی اپنا کر ان شعبوں پر اخراجات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج 40بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے اور حکومت کو اس خطرناک خلا کو پُر کرنے کے لیے انتہائی اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں۔ ادائیگیوں کے لیے درکار غیرملکی ذخائر خطرناک حد تک گرتے ہوئے 10بلین ڈالرز رہ گئے ہیں جو صرف دو ماہ کے لیے ملکی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے 23ویں مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

عمران خان حکومت کیبرطرفی کے بعد ایندھن پر دی جانے والی سبسڈیز ملک کے لیے معاشی بم ثابت ہو رہی ہیں۔ سبسڈی کی وجہ سے غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی نے اسٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچا دی ہے، ڈالر کا ریٹ 2سو روپے سے تجاوز کر گیا ہے اور ابھی آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ 6بلین ڈالرز کے زرِ ضمانت کے لیے بات چیت تکلیف دہ اقتصادی اقدامات کے نفاذ اور قبولیت پر مبنی ہے۔ ایندھن کی قیمتوں پر سبسڈی کو ختم کرنا اور اگلے مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 1ٹریلین روپے کا اضافہ کرنے جیسی شرائط ماننا پڑیں گی۔ یہ سب کچھ پچھلی حکومت نے عوام میں سیاسی حیثیت بچانے کے لیے کیا تھا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ چین اور سعودی عرب نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ نادہندہ معیشت کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے مشروط قرض دیا جائے۔

تاہم پاکستان اپنی معاشی اور سیاسی غیریقینی صورتحال کے باوجود پانچ فیصد جی ڈی پی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی کا حامل ہے۔ UNICEFکے مطابق پاکستان کی نوجوان آبادی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تجارتی شراکت داروں کے لیے بےپناہ ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہر سال، پاکستان کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں اور مزدوروں سے ترسیلاتِ زر کی شکل میں اربوں ڈالر حکومتِ پاکستان کی طرف سے معمولی خدمات کے عوض ملتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جارحانہ موقف اپنائے اور اس نوجوان افرادی قوت کو بروئے کار لائے۔ آج کے نوجوان پاکستان کے لیے عالمی تجارت کے دروازے کھولنے اور اسے عالمی معاشی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع اس کی حقیقی صلاحیتوں سے فوائد حاصل نہیں کر پایا۔ CPEC اور OBORکی شکل میں چین کے ساتھ اشتراکِ عمل کی بدولت بہت سے فوائد حاصل کیے گئے ہیں جن میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغربی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارتی روابط نہیں بڑھائے، لیکن اب وقت ہے کہ مہنگے سمندری راستوں سے خریداری کی بجائے زمینی سرحد کے ذریعے ایران سے سستا ایندھن حاصل کیا جائے۔

حکومت نے بالآخر آٹو موبائیلز، الیکٹرانکس، شیمپو، کاسمیٹکس، کھانے کی اشیا اور لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگانے کا بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے درآمدی بل میں کمی آئے گی لیکن یہ درآمدات کا ایک انتہائی معمولی حصہ ہے۔ سرفہرست آئٹم ایندھن اور گیس ہے۔ شہباز شریف حکومت کو قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں، ڈیموں اور شمسی تنصیبات کے ذریعےفوسل فیول سے پیدا ہونے والی بجلی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے واضح پالیسی وضع کرنی چاہیے، اس کی تکمیل قومی ایندھن کھپت پالیسی سے ہونی چاہیے۔ ورک فرام ہوم جیسے اسمارٹ آئیڈیاز سے پیٹرول اور ڈیزل کی مانگ کم کی جا سکتی ہے۔ ان تمام درآمدی کٹوتیوں سے نجات دہندہ ایکسپورٹ سیکٹر ہے جسے سب سے بڑھ کر ترجیح دی جانی چاہیے۔ پاکستان کو ہنگامی طور پر ایکسپورٹ گروتھ پروگرام نافذ کرنا چاہیے، کیونکہ درآمدی ٹیکس یا کسی بھی اور بالواسطہ ٹیکس کی بجائے ایکسپورٹ ہی اصل ریونیو کا ذریعہ ہے۔ ان تمام نظرانداز شعبوں کو اقتصادی بحالی کے قومی ایجنڈے میں مکمل طور پر شامل کیا جانا چاہئے، کیوں کہ ہر گزرتا دن نئے چیلنجز کے ساتھ نئے مواقع کو بھی جنم دے رہا ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین