• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ، جنہیں ان کے سیاسی مخالفین منشی کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں، کے اثاثہ جات ریفرنس میں دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے ہیں۔ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی اور کیس میں ملوث تین شریک جرم ملزمان کے خلاف ٹرائل اسحاق ڈار کی گرفتاری تک روک دیا۔عدالت نے کہا کہ شریک ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ بھی اسحاق ڈار کی گرفتاری سے مشروط ہے۔وکلاءصفائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ریفرنس کے مرکزی ملزم اسحاق ڈار کے وطن واپس آنے کی اطلاعات ہیں اور ایسی صورت میں ان کی غیر موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ ریفرنس پر اثر انداز ہوگا، اس لیے استدعا ہے کہ اسحاق ڈار کی واپسی تک سماعت ملتوی کر دی جائے جس کے بعد سماعت 18 مئی تک کیلئے ملتوی کردی گئی تھی۔قبل ازیں کئی سال پہلے ماہ ستمبر میں ہی موصوف کی دس دن میں وطن واپسی کیلئے اسوقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ڈار صاحب کو ایسی” چک “پڑی ہے کہ یہاں تو سارا معاملہ ہی چکا گیا، عدالت سب سے زیادہ پریشان ان کی عدم حاضری پر ہے جو بلانے کے باوجود پیش نہیں ہو رہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موجودہ حکومت نے اس معاملے میں اب تک کیا کیا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیب نے انہیں اشتہاری قرار دیا ہوا ہے اور انٹرپول کو بھی معاملہ ریفر کر رکھا ہے۔

اسحاق ڈار نے نہ آنا تھا نہ آئےاب وہ ایک بار پھر اپنی حکومت کے دور میں ہی آسکتے ہیں۔ انہوں نے نیا کام یہ کیا ہے کہ اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ کیخلاف آرٹیکل ٹوئٹ کر دیا جس کے بعد انہیں اپنی ہی جماعت کے کارکنوں کی تنقید کا سامنا ہے۔سینئر لیگی رہنما نے ایک اردو اخبارمیں شائع ہونے والا ایک آرٹیکل ٹوئٹ کیا جس میں مفتاح اسماعیل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اسحاق ڈار کی جانب سے ٹوئٹ کیے گئے آرٹیکل میں شہزاد قریشی نے لکھا کہ ”معاشی بحران کے حل کیلئے جس نے بھی وزارت خزانہ کا قلمدان مفتاح اسماعیل کو دیا ہے وہ یا تو اس ملک کی زبوں حالی سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔مفتاح اسماعیل فیکٹری کے مالک ضرور ہیں لیکن معاشی ماہر نہیں، اس طرح کے وزیروں سے معیشت اور معاشرت پہلے سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہو جاتی ہے“۔

سابق وزیرخزانہ نے پھر پینترا بدلتے ہوئے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ عمران خان کی حکومت کے جومعاشی حالات وزیراعظم شہباز شریف کو ملے ہیں وہ بڑے مایوس کن ہیں، جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بیس روپے اور بجلی کی قیمت پر پانچ روپے سبسڈی دی گئی تو کہا گیا کہ وہ فنڈڈ ہے، اگر سبسڈی فنڈڈ ہوتو آئی ایم ایف کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتالیکن یہ فنڈڈ نہیں ہے، یہ قوم سے غلط بیانی کی گئی، کنسٹرکشن کی ایمنسٹی اسکیم دی تھی اس کے پیسے فنڈ کرنے تھے، ایسے نہیں ہوتا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ عمران خان نے بجٹ تک تیل کی قیمتوں کو فکس کیا یہ ساڑھے تین سوارب کی رقم ہے جوکہ فنڈڈ نہیں ہے، آئی ایم ایف کہتا ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالیں، لیکن ن لیگ نہیں سمجھتی کہ عوام پر بوجھ ڈالا جائے۔

حکومت کے پاس مہلت عمل مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے اور اس نوزائیدہ حکومت کی جو کہ ماضی کی حریف جماعتوں پر مشتمل ہے کے ہاتھ آیا وقت تیزی سے گزررہا ہے لیکن اب بھی قیادت فیصلے کرنے کی بجائے دن گزارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے پاکستان کے پاس کچھ زیادہ مواقع نہیں رہے۔قرض کا صرف سود ادا کرنے کے لیے نیا قرض لینے کا فیصلہ درست نہیں اسی وجہ سے ملک کو موجودہ مسائل کا سامنا ہے دوسرا آپشن یہ ہے کہ درآمدات میں فوری کمی لاکر برآمدات بڑھاکر زرِ مبادلہ حاصل کیا جائے اور قرض کی ادائیگی سے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جائے تیسرا یہ کہ نہ صرف غیر پیداواری منصوبے ختم کیے جائیں بلکہ غیر ضروری اخراجات کا سلسلہ بھی ترک کیا جائے لیکن اگر مقصدصرف اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کو خوشحال بنانا ہی ہے تو پھر نیک نامی کی توقع مت رکھیں وقت محدود ہے اسی محدود وقت میں انتخاب کر لیں وگرنہ صرف پچھتاوارہ جائے گا۔ اسحاق ڈار اگر واپس پاکستان تشریف لے آئیں تو وہ حکومت کو نیا بجٹ بھی بناکر دے سکتے ہیں اورمہنگائی کو بھی کم کرسکتے ہیں۔ اسحاق ڈارمت ڈریں، پاکستان آپ کا اپنا ملک ہے ۔ ڈالر کے پر نوچ کر اسے اس کی اصل اوقات بھی یاد دلا سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دور حکومت میں ڈالر کو کامیابی سے خواہ مصنوعی طریقے سے ہی سہی قابو میں رکھ چکے ہیں۔ ڈار اور ڈالر ایک دوسرے سے نمٹنا بخوبی سمجھتے ہیں .....کیا خیال ہے آپ کا ؟

تازہ ترین