• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے وہ ہر بحران کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سے معاملات میں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتقالِ اقتدار کے دوران بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری اقتدار میں آنے اور جانے والوں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس طرح کے معاملات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے جن کے بارے میں مستند اعداد وشمار دستیاب ہوں اور حقائق بھی ایسی الزام تراشی کا ساتھ نہ دیتے ہوں۔ اس طرح کےسیاسی حملوں اور بے بنیاد الزامات سے جہاں الزام لگانے والے کی اپنی شخصیت مسخ ہوتی ہے وہیں قومی سیاسی منظر نامہ بھی مزید پراگندہ ہو جاتا ہے۔ اتحادی حکومت کو اب تقریباً دو ماہ کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے لیکن ان کی معاشی ٹیم تاحال قوم کو کوئی واضح معاشی پالیسی نہیں دے سکی ۔ اب تک ان کی معاشی ٹیم کا زور اس بات پر ہے کہ ہر خرابی کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈال کر اچھے کام کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال لیا جائے۔ ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی آگے بڑھ کر اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے تاکہ لوگ انہیں خود جانچ پرکھ کر اپنی رائے قائم کر سکیں اور انہیں پتہ چل سکے کہ جانے والوں نے کیا کیا تھا اور آنے والے کیا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہاں گزشتہ حکومت کے دور میں ہونے والے ان مثبت اقدامات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جن کی تصدیق کوئی بھی شخص اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وفاقی ادارہ شماریات، ایف بی آر، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، ورلڈ بینک اور پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ریکارڈ سے کر سکتا ہے۔ اس کاوش کا مقصد یہ ہے کہ معاشی حقائق کو سیاسی تعصب سے بالاتر ہوکر سمجھنے اور تسلیم کرنے کے رویے کو فروغ دیا جائے۔تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جو سب سے بڑا کام کیا تھا وہ پاکستان کی بند انڈسٹری کو چلاکر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس ایک اقدام سے ملک بھر میں نہ صرف سینکڑوں بند صنعتی یونٹس دوبارہ فعال ہوئے بلکہ پاکستان کی برآمدات بھی 2018کے مقابلے میں 24.7ارب ڈالر سے بڑھ کر 34 ارب ڈالر ہو گئیں یعنی ساڑھے تین سال کے عرصے میں برآمدات میں 38 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کو بڑھانے اور ہنڈی و حوالے کے کام کو ختم کرکے بینکنگ چینل سے رقوم بھیجنے کی حوصلہ افزائی کر کے گزشتہ حکومت نے پاکستان آنے والی ترسیلاتِ زر میں 60 فیصد کا گرانقدر اضافہ کیا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مزید وضاحت کر تا چلوں کہ 2018میں پاکستان کو موصول ہونے والی ترسیلاتِ زر کا مجموعی حجم 19.6ارب ڈالر تھا جو کہ مارچ 2022 میں بڑھ کر 31.3ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔

گزشتہ حکومت نے ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں نہ صرف کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 90 فیصد کمی کر کے اس کا حجم 18.1ایک ارب ڈالر سے کم کر کے 1.85ارب ڈالر کیا بلکہ ٹیکس کلیکشن میں بھی 40 فیصد کا نمایاں اضافہ علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی 77 فیصد اضافہ ممکن بنایا گیاجس کی وجہ سے ان کا حجم 2018ء کے مقابلے میں 9.8ارب ڈالر سے بڑھ کر 17.3ارب ڈالر ہو گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کورونا کی وبا کے باوجود نہ صرف کم آمدنی والے طبقے کو 1200 ارب روپے سے زائد کی امداد فراہمی کی گئی بلکہ انڈسٹری کو بھی بند نہیں ہونے دیا گیا۔ ان مشکل حالات کے باوجود گزشتہ حکومت نے ترقی کی شرح کو 5.6فیصد تک پہنچا کر جی ڈی پی کے حجم کو 12 فیصد کے گرانقدر اضافے کے ساتھ 310 ارب ڈالر سے بڑھا کر 347 ارب ڈالر کیا۔

اس دوران گزشتہ حکومت نے انڈسٹری بالخصوص ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے سالہا سال سے واجب الادا 322 ارب روپے سے زائد کے ریفنڈز کا اجرا ممکن بنایا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013 سے 2018 تک پانچ سال کے عرصے میں انڈسٹری کو صرف 154.7ارب ڈالر کے ریفنڈز جاری کئے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ حکومت نے ساڑھے تین سال کی مدت میں ریفنڈز کی ادائیگی میں 109 فیصد کا ریکارڈ اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ 157 فیصد اضافے کے ساتھ 5.8فیصد سالانہ سے بڑھ کر 14.9فیصد سالانہ ہو گئی۔

اس طرح 2018 سے 2022 کے عرصے میں گندم کی پیداوار نو فیصد اضافے کے ساتھ 25.2ملین ٹن سے بڑھ کر 27.5ملین ٹن رہی۔ چاول کی پیداوار 115 فیصد اضافے کے ساتھ 3.9ملین ٹن سے بڑھ کر 8.4ملین ٹن، مکئی کی پیداوار 56 فیصد اضافے کے ساتھ 5.7ملین ٹن سے بڑھ کر 8.9ملین ٹن اور چینی کی پیداوار پانچ فیصد اضافے کے ساتھ 6.5ملین ٹن سے بڑھ کر 6.8ملین ٹن رہی۔ علاوہ ازیں چھ ڈیموں کی تعمیر ممکن بنائی گئی جبکہ بجلی کی پیداوار 45 فیصد اضافے کے ساتھ 80 ارب یونٹ سے بڑھ کر 116 بلین یونٹ رہی۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کی اربابِ اقتدار متعلقہ سرکاری اداروں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں ایک بار پھر یہ بات دہرائوں گا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے معاشی معاملات کو تختہ مشق نہیں بنانا چاہیے اس سے نہ صرف عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج متاثر ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین