• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کے دوران مدینہ منورہ میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے ملاقات ہوئی، ان سے درخواست کی کہ سابقہ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں پر اپنے استعمال یا عزیز و اقارب کے لیے لائے جانے والے ایک موبائل فون پربھی پابندی عائد کردی ہے یا لاکھوں روپے ٹیکس عائد کردیا ہے جس سے اوورسیز پاکستانی کافی دلبرداشتہ ہیںلہٰذا اب مسلم لیگ ن کی حکومت آگئی ہے تو آپ لوگ کم از کم بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو ایک فون بغیر ڈیوٹی لانے کی اجازت تو عنایت فرمادیں، جس پرنہ صرف محترمہ مریم اورنگزیب نے مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا بلکہ مفتاح اسماعیل صاحب نے بھی بتایا کہ ہم نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک فون بغیر ڈیوٹی پاکستان لانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کا اعلان آنے والے بجٹ میں کردیا جائے گاتو میں نے ان سے درخواست کی، اس کا اعلان ابھی کردیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے دلوں میں ن لیگ کی حکومت کی تکریم میں اضافہ ہوسکے لیکن آج تک وزیر خزانہ یہ اعلان نہیں کرسکے، صرف یہی نہیں گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اپنی تقریر میں اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی بڑا اعلان نہیں کیا جس کی توقع اوورسیز پاکستانی وزیر اعظم سے کررہے تھے۔ بہرحال حکومت نے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بعض لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے بلاشبہ اتنے مشکل حالات میں قرض میں ڈوبی ہوئی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کتوں کو کھلانے کے لیے بھی لاکھوں ڈالرز کی غیر ملکی غذائیں سرکاری ڈالروں سے درآمد کرے، ایسی ہی درجنوں لگژری آئٹمز ہیں جن پر حکومت نے پابندی عائد کی ہے ان میںبیرون ممالک سے مکمل تیار کردہ گاڑیوں کی درآمد پر بھی حکومت نے پابندی عائد کردی ہے، یہ بہت اچھی بات ہے خاص طور پر حکومت کو یہ تحقیقات بھی کرانی چاہئیں کہ سابقہ حکومت میں بعض کمپنیوں نے دس، دس ہزار گاڑیاں سرکاری ڈالر وں کے ذریعے کیسے امپورٹ کرلیں، خاص طور پر جب ایسی کمپنیوں کو صرف سو سے دو سو گاڑیوں کی درآمد کی قانونی اجازت حاصل تھی؟ ساتھ ہی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو فراہم کی جانیوالی سہولت جس میں وہ ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم اور گفٹ اسکیم کی مد میں ایک گاڑی اپنے لیے یا اپنے اہلِ خانہ کے لیے پاکستان لاسکتے تھے، اس پر بھی پابندی عائد کردی ہے، شاید وزیر اعظم کے علم میں نہ ہو کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے اس اسکیم میں حکومت کا ایک ڈالر بھی باہر نہیں جاتا بلکہ سالانہ تین سو سے پانچ سو ملین ڈالر کا زرِمبادلہ بینکوں کے ذریعے حکومت کو صرف ان گاڑیوں کی ڈیوٹی کی مد میں موصول ہوتا ہے جب کہ یہ گاڑیاں بھی اوورسیز پاکستانی اپنی بچت سے خریدتے ہیں اور حکومتی قوانین کے تحت ان گاڑیوں کی ڈیوٹی بھی زرِمبادلہ کی شکل میں بینکو ں کے ذریعے پاکستان بھجواتے ہیں یعنی حکومت نے ایک ایسی سہولت پر بھی پابندی لگادی جس سے حکومت کو سینکڑوں ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے، توقع ہے وزیر اعظم فوری طور پر اس پابندی کا خاتمہ کرکے صرف ایسی درآمدی اشیا پر پابندی لگائیں گے جس پر سرکاری ڈالر خرچ ہورہے ہوں، حکومت کو چاہیے کہ وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہائبرڈ یا الیکٹرک گاڑیاں پاکستان بھجوانے کی اجازت دے جس سے ملک میںپیٹرول کے استعمال میں بھی خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ ساتھ ہی حکومت کا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نشستیں مختص کرنے کا فیصلہ بھی قابلِ تعریف ہے لیکن یہ نشستیں صوبائی اسمبلی میں بھی مختص کی جانی چاہئیں، کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے مسائل کے حل کے لیے خود پارلیمنٹ میں موجود ہوں، جبکہ برطانیہ میں مقیم سینئر قانون دان اور لیگی رہنما بیرسٹر امجد ملک نے وزیر اعظم کو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر مبنی خط تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ائیرپورٹ پر خصوصی سہولیات فراہم کرنے،ان کی جائیدادوں پر قبضہ ختم کرانے،ان پر پاکستان میں چلنے والے کیسز کی آن لائن سماعت کرنے،انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر سہولت فراہم کرنے،قومی ائیرلائن کی سروس دنیا بھرکے ممالک میں شروع کرنے اور اوورسیز پاکستانیوں کی میتوں کو دنیا بھر سے سرکاری خرچے پر پاکستان لانے جیسے مسائل پیش کیے ہیں۔ امید ہے ان مسائل کے حل کے لیے بھی جلد کارروائی کی جائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین