• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی سیاسی و طبعی اسمارٹ نیس پر حسد میںکوئی تنقید کرے تو کرے، ورنہ خان ایک بین الاقوامی شخصیت کا حامل، عروج کی بلندیوں کو چھونے اور کامرانیوں کی رفاقتوں سے بخوبی آشنا رہنما ہے۔ خان پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم برانڈ بن چکا جس سے ایک کثیر تعداد عظیم خدمات اور فیصلوں کی توقع رکھتی ہے۔ بات صرف لیڈر کی تمنا کی نہیں ہوتی، بات ان لوگوں کی خواہشات اور حسرتوں کی بھی ہوتی ہے جو عوام لیڈر سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ یہی وہ آرزوئیں ہوتی ہیں جو لیڈر کو اپنی زندگی سے دور اور لوگوں کی تمناؤں کے قریب تر کر لیتی ہیں۔ اگر لیڈر عوام اور عوامی خواہشات کے مطابق جینے کا سلیقہ سیکھ لے تو وہ حقیقی اسٹیٹس مین ہوتا ہے، وہ اگرلوگوں کو محض یہ تاثر دے کہ وہ عوام کیلئے سب کچھ کر رہا ہے مگر درونِ خانہ اس کے ذاتی عزائم کچھ اور ہوں تو یہ فاشزم ہے۔

فاشزم کے پس منظر میں جھوٹ، پروپیگنڈہ، حرص و ہوس کی چالیں اور ایک مخصوص طبقے یا خاص شخصیت کو ثمرات ملتے ہیں جبکہ پیش منظر میں عوام کی خدمت کا رنگ عیاں ہوتا ہے اور فاشزم میں اس قدر صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ جمہوریت و آمریت اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں بھی اپنا راستہ نکال لے، اس کیلئے صدارتی یا پارلیمانی نظام میں سانس لینے اور پنپنے کی بھی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ سدا سے عالم و فاضل اور جاہل کو بیک وقتگرویدہ بنا لینے میں ماہر ہے۔ وہ الگ بات ہے جب تک لوگ حقائق کی تہہ تک پہنچتے ہیں تب تک بگاڑ اپنا کام دکھا چکا ہوتا ہے اور بناؤ دور بیٹھا ماتم کناں دکھائی دے!

خان میں ایسی تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو فاشزم سے دور اور حقیقی جمہوریت کے قریب تر کردیں اور خان یقیناً ایسا چاہتے بھی ہیں۔ لیکن، جانے کون ہے جو ان سے ’’حقیقی آزادی‘‘ اور ’’سونامی‘‘ سی اصطلاحات کا استعمال کرواتا ہے؟ ریاستِ مدینہ اور نیا پاکستان جیسی ٹرمنالوجی کو ان کی زبان پر رکھ دیتا ہے؟ ’’تبدیلی‘‘ کی حد تک تو باتیں قابلِ ہضم ہیں لیکن دیگر متذکرہ باتیں سچائی کی حدود پار کرتیں اور افسانوں کی رفیق یا عملی جاموں سے دور کھڑی محسوس ہوتی ہیں۔

قائدِاعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، نواز شریف اور قاضی حسین احمد کی صف میں کھڑا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لینے والا شخص جب وقت کے شیخ رشید، شہرت کے طالب فیصل واوڈا، فواد چوہدری جیسے تکبر کے پہاڑوں، صلاحیتوں سے بےبہرہ عثمان بزدار اور پُراسرار بابر اعوان کے گرداب میں پھنستا ہے تو قوم کی آس نقصانات کی نذر ہوتی جاتی ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے والے اور چشم بینا کے حاملین گواہ ہیں کہ بھٹو کو تخت سے تختۂ دار اور نواز شریف کو اقتدار سے زندان اور دیارِ غیر تک پہنچانے والوں میں جہاں حالات کی ستم ظریفی کار فرما تھی وہاں کچھ اپنوں کی بےوفائی اور عاقبت نااندیشی کا عمل دخل بھی تھا جو عمرانی تاریخ میں بھی کندہ ہے بشرطیکہ کوئی اس آپ بیتی و جگ بیتی کے صریر خامہ پر بھی کان دھرے۔ کاش کوئی جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے!

کبھی کبھی جب حلقۂ احباب ہی حلقۂ گرداب کی صورت اختیار کر جائے تو کچھ مخلص ساتھی بھی بےبس دکھائی دیتے ہیں، پھر یہاں قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ کس طرح بھنور سے نکلے اور اپنے پرستاروں سے وفا کرے!

ڈیموکریٹ ہمیشہ جماعت اسلامی سے پیپلز پارٹی تک ، پی ٹی آئی سے نون لیگ تک اور اے این پی سے جمعیت تک سب کو اپنے اپنے مقام پر دیکھنا چاہے گا اور یہ بھی کہے گا کہ دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت! یہ بات سوچ کر بھی بعض اوقات من بھاری سا ہو جاتا ہے کہ مقتدر حلقوں نے عمرانی چناؤ اس قدر نامناسب بھی نہیں کیا تھا جس قدر یہ ناتواں اور نااہل ہو گیا۔ بات وہی کہ وہ لمحے صدیوں کی ریاضت کو بھی نگل جاتے ہیں جب ہم رفیقوں کی صف میں رقیبوں کو بٹھا بیٹھتے ہیں۔ جب اسد عمر و حماد اظہر جیسے تیر محض ترکش ہی کی زینت ہو کر رہ جائیں اور چلانے کیلئے حفیظ شیخ اور شوکت ترین ڈھونڈنا پڑیں، جب شاہ محمود سے بھی شیخ رشید سا انداز اپنانے بیٹھ جائیں تو پھر کیا داخلہ اور کیا خارجہ۔ فروغ نسیم کارآمد نہ بابر اعوان کارگر پھر خان کیا کرے؟ ضروری تھا اٹھارہویں ترمیم کی قدر کی جاتی۔

کیا ہوا تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تھی اور کچھ لوگ منحرف، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کا وقار داؤ پر لگانے کے بجائے اور ممبران کو استعفے دینے کے بجائے دھڑلے کی اپوزیشن بن کر پارلیمان کی رونق بنے رہنا چاہیے تھا۔ قریشی کو خط کی کلا کاری و کشیدہ کاری کی پٹی پڑھانے کے بجائے جمہوری ابواب اور سفارتی آداب سمجھانے چاہئے تھے کہ اقتدار کے عارضی الوداع کو مستقل آمد میں بدلا جا سکتا تھا، گلشن میں علاج تنگیٔ داماں تھا۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد رکھ کر نواز شریف کے نقش قدم پر چلنے کی جلدی ہی کیا تھی جب کارکردگی تھی نہ منصوبہ بندی؟

پنجاب کے صدر شفقت محمود اور جنرل سیکرٹری یاسر ہمایوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں تھے وزراء، ٹکٹ ہولڈرز اور ممبرانِ اسمبلی کے قافلے؟ وہ کاوشیں کہاں ہیں جو مارچ کی ہم رقاب بنیں؟ عثمان بزدار کہاں تھا؟ پکڑ دھکڑ ہوتی یا ناں مگر خان کو بھی جی ٹی روڈ اور پنجاب کی قیادت سے دوری اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی چاہے جیل بھرو تحریک کو ہوا دینا پڑتی۔ پنجاب کی اشرافیہ اور دیارِ غیر میں موجیں مارنے والوں یا جاگیر دار و سرمایہ دار کو کون سی ’’حقیقی آزادی‘‘ درکار ہے؟ کے پی سے قانونی و غیرقانونی افغانوں اور مقامی شہریوں کی اکثریت جفاکش ہے اور مخلص بھی، انہیں تھکانے کی ضرورت ہی ابھی کہاں تھی؟ یہ کے پی کارڈ کا وقت تھا؟ خان صاحب! وقت ابھی بہت ہے اور آپ باصلاحیت اور انمول سو حلقۂ علم و دانش و حلقۂ احباب از سرِ نو دریافت کیجئے اور حلقۂ گرداب سے اجتناب بھی ضروری ہو چکا!

تازہ ترین