• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کاش یاسین ملک کا دکھ ہمیں بالکل اپنے ہی دکھ جیسا لگے، کاش ہم جان سکیں کہ عقوبت زندگی کا عظیم غم ہے، ناکردہ گناہوں کی سزا ہے، دکھ ہے، عذاب ہے، روح پر لگا کاری زخم ہے، دل میں پیوست اذیت کا تیر ہے، جسم کی بے چارگی ہے، ذہن کی ختم نہ ہونے والی تکلیف ہے، عقوبت اگر مسلسل ہو تو پیکر زخمی ہی رہتا ہے، چہرہ غموں کا غماز رہتا ہے۔ آپ نے کبھی کسی قیدی کے چہرے پر غور کیا ہے، کبھی اس کے غمگین سے سراپے کو پڑھا ہے کہ دکھوں کا لامتناہی سلسلہ اس کی شخصیت و سراپے کو کھا جاتا ہے۔ اس کی شخصیت مسخ ہوچکی ہوتی ہے۔ویسے تو انسان کی زندگی کے دو ہی اہم پہلو ہیں، موت اور حیات! زندگی کی راعنائی انہیں دو لفظوں میں سمٹی پڑی ہے کہ حیات کی عقوبت سے آزاد ہوئے تو سیدھے موت کی قید میں ابدی نیند جا سوئے۔بعض لوگوں کی زندگی دکھوں اور غموں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان کی آزادی کی تمام کوششیں کوئی دام وصول نہیں کرپاتیں کہ ان کی زندگی میں وہ اپنا ملک آزاد ہوتے دیکھ لیں، آزادی کا تحفہ انہیں نصیب ہوجائے۔ انہیں اپنی جہد مسلسل کا کوئی صلہ نظر نہیں آتا۔ ان کی دوڑ دھوپ، جدوجہد وسیلہ ظفر دکھائی نہیں دیتی، حتیٰ کہ اسے جہد للبقاہی کی جنگ لڑنا پڑ جاتی ہے کہ اس کی ذاتی زندگی سے لے کر بیرونی زندگی تہس نہس ہوجاتی ہے، آزادی کی جس جنگ کے لیے وہ خود کو طاقتور سمجھتا ہے، وہی کوشش اور جنگ اسے زندگی کی کشمکش میں مبتلا کرکے کمزور تر کردیتے ہیں کہ اسے زندگی کرب میں مبتلا ہر دم لگتی ہے۔ یہ تو آپ سب ہی کو معلوم ہے کہ25مئی کو بھارتی عدالت نے حریت رہنمایاسین ملک کو متعصبانہ فیصلہ عمر قید کی صورت میں سنا دیا، پھر دس لاکھ جرمانہ بھی بھارتی کرنسی میں ادا کرنے کا حکم سنا یا۔ یہ فیصلہ ایک ناکردہ گناہ کی سزا ہے، یعنی جھوٹے الزامات کے تحت انہیں قیدوبند رکھا گیا۔ انہیں آزادی کی جنگ کی پاداش میں بہت بڑا ملزم ٹھہرایا گیا، جبکہ ایک علیحدہ آزاد ریاست ہر قوم کا ایک خواب ہوتا ہے مگر بھارت کی یہ ناعاقبت اندیشی ہے کہ یاسین ملک کو آزادی کا خواب دیکھنے کی پاداش میں تنہا کردیا، ناصرف دنیا میں بلکہ جیل میں بھی انہیں تنہا مزید رکھا جائے گا، وہ جو علیحدہ آزاد ریاست کا خواب دیکھنے والا اب تنہائی کے کرب سے گزرے گا اور یہ اذیت اسے تب تک سہنا ہوگا جب تک اس کے نصیب میں معجزے نہیں لکھے جاتے۔ یٰسین ملک کو تہاڑ جیل میں13ہزار قیدیوں سے دور اور الگ رکھا جائے گا، وہ اپنے کمرے میں تنہا زندگی گزاریں گے وہ جو قیدی سے کام لیا جاتا ہے نامشقت اور جبری مشقت کا وہ بھی ان سے نا لیا جائے گا۔ انہیں کمرے میں سب سے الگ رکھا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ ابھی بھی ان کی سیکورٹی کافی سخت رکھی گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یاسین ملک نے عدالت میں اپنے ہی خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ اعلیٰ عدالتوں میں سزا کو چیلنج بھی پیش نہیں کرسکتے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ غلامی سے نجات اگر گناہ ہے تو پھر دنیا کی مقبوضہ ریاستیں اور دیگر لیڈران نیلسن منڈیلا سمیت آزادی کو ثواب سمجھ کر کیوں جاری رکھے ہوئے تھے۔بہرحال بھارت میں انہیں کون سی کلاس کی جیل ملتی ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا اور اگر کوئی جیل مل بھی گئی تو بھی فائدہ نہیں کہ وہ ہر دم کیمرے کی آنکھ کےتلے رہیں گے، سخت سیکورٹی ہوگی، حالانکہ جیل حکام کے بقول یٰسین ملک کے خلاف کبھی کوئی جیل کی سزا درج نہیں کی گئی ہے، ان کا رویہ جیل انتظامیہ کے تحت ساتھی قیدیوں کے ساتھ اس دوران اچھا اور پرامن رہا ہے۔آج یٰسین ملک بھلے ہی بھارتی جیل میں ایک اچھے قیدی کے طور پر رہ رہے ہیں، انہوں نے عملے کیلئے جو وہاں موجود ہے، ان کیلئے مسائل کھڑے نا کیے مگر ان کی اپنی زندگی یہ تصویر پیش کرنے لگی کہ ان کے دکھوں نے انہیں اس حال کو پہنچایا۔
زندگی میری مجھے قید کیے دیتی ہے
اس کو ڈر ہے میں کسی اور کا ہوسکتا ہوں
تو بھلے ہی وہ قید میں ہیں مگر زندگی نے انہیں زندہ رہنے کی ہمت دے رکھی ہے۔ نیز یہ بھی کہ انسان کے پاس کوئی مقصد حیات نہ ہو تو پھر وہ واقعی زندگی تو گزارتا ہے مگر بے رنگ سی، ترنگ اور امنگوں کے بغیر۔
زندگی میری مجھے قید کیے دیتی ہےاس کو ڈر ہے میں کسی اور کا ہوسکتا ہوںتو بھلے ہی وہ قید میں ہیں مگر زندگی نے انہیں زندہ رہنے کی ہمت دے رکھی ہے۔ نیز یہ بھی کہ انسان کے پاس کوئی مقصد حیات نہ ہو تو پھر وہ واقعی زندگی تو گزارتا ہے مگر بے رنگ سی، ترنگ اور امنگوں کے بغیر۔ہم سب پاکستانیوں اور کشمیری بہن، بھائیوں کیلئے یاسین ملک کی عمر قید کی سزا روح میں چبھی کرچی کی مانند ہے جو جب بھی یاد آئے تو کرچی چبھ جائے۔ تن تنہا جیل میں زندگی گزارنے والے یاسین ملک پر کیا گزرے گی کہ وہ حریت کاز کا لیڈر آزادی کا حامی مگراسے قید کے حقوق بھی اسے میسر نہیں کہ وہ دیگر قیدیوں سے دکھ سکھ ہی کہہ سکے، کسی دوسرے کا چہرہ ہی دیکھ سکے۔ اپنے پیاروں کی شکل دیکھ سکے۔ تب ہی تو مشعال ملک کہتی ہیں کہ کلبھوشن یادیو ایک دہشت گرد ہےجس نے پاکستان میں خون کی ندیاں بہانے میں اہم کردار ادا کیا، اسے حکومت پاکستان نے انسانیت کے ناطے اس کی والدہ اور اہلیہ سے ملنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر کشمیری قیدیوں کو ایسی سہولت میسر نہیں ہے۔ ہم دل سے دعا گو ہیں کہ یٰسین ملک اور دیگر کشمیری قیدی بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے رہا ہوں، جانے کس اذیت میں ہیں وہ تمام کہ کوئی نہیں جانتا۔
یورپ سے سے مزید