• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں حالیہ بلدیاتی الیکشن میں لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جس سے اس حقیقت کو بہت تقویت ملتی ہے کہ بلوچستا ن کے مسائل کا حل صرف اور صرف بات چیت میںہی پنہاں ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں نیوٹرلز نے کوئی مداخلت نہیں کی اور یوں 2018 کے الیکشن میں نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی جو سیاست سے باہر کر دی گئی تھیں، حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پھر سے بڑی سیاسی پارٹیاں بن کر ابھری ہیں۔ پورے صوبے میں شدید گرمی کے باوجودمجموعی طور پر ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس سے ساٹھ فیصد رہی لیکن تربت میں یہ شرح ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ تھی جہاں عورتوں نے بڑھ چڑھ کر نہ صرف ووٹ ڈالے بلکہ الیکشن میںبطور امیدوارحصہ بھی لیا۔ 1988کے بعد یہ بلوچستان میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی سب سے بڑی شرح ہے۔اس الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک عام سیاسی ورکر مولانا ہدایت الرحمان کی’’حق دو‘‘تحریک نے گوادر کے الیکشن میں کلین سویپ کیا۔ گو کہ مولانا کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے لیکن انہوں نے یہ الیکشن نہ تو جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے لڑا اور نہ ہی جماعت اسلامی کے نعروں اور استعاروں کو اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا بلکہ انکی ساری انتخابی مہم قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کی طرح تھی۔انکے مقابلے میں چھ سیاسی پارٹیوں نے اتحاد بھی کر لیا لیکن وہ ابھرتے ہوئے عوامی سیاسی شعور کا مقابلہ نہ کر سکیں کیونکہ مولانا نے گوادر میں فشر مین کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے مسائل اور افسر شاہی اور سرداری نظام کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی اور اپنے ارب پتی مخالفین کو زیر کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اس سرزمین پر مسائل کا حل بندوق کی نوک یا اربوں روپے خرچ کرنے میں نہیں بلکہ عوام کو سیاسی شعور دے کر ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں ہرائی جانے والی، عام ورکروں کی نیشنل پارٹی نے تربت، پنجگور، آواران اور خضدار کے الیکشن جیت کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان کے عوام اب بھی اپنے مسائل کے حل کیلئے وفاق کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ڈاکٹر مالک کے زمانے میں جلا وطن بلوچ رہنمائوں سے جس مقام پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے تھے، وہیں سے دوبارہ شروع کیے جائیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے۔ ارباب اختیار کاانتخابات میں نیوٹرل ہونا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا ہوگا کہ پاکستان میں موجود قوموں اور خاص طور پر محروم قوموں کو انکے حقوق دیے بغیر بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ مربوط نہیں کیا جا سکے گا۔یاد رہے کہ یہ ملک پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی اور سرائیکی قوموں کا ایک وفاق ہے جن کی پانچ پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے اورجو زبان، ثقافت، جغرافیہ، تہذیب و تمدن سے مالا مال ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اقتدار کے پہلے ہفتے میں ہی بلوچستان کا دورہ کیا اور بلوچستان کے سب سے بڑے مسئلے یعنی لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے اپنی کاوشیں بروئے کار لانے کا عندیہ دیا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ حکومت بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے گی۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے لاپتا افراد کے مقدمے میں ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک کمیشن کا اعلان کیا جس کے سربراہ سینٹ کے چیئر مین اور جس کے ممبران میں پاکستان کے مایہ ناز دانشور اور عمائدین شامل تھے، شہباز شریف کی لاپتہ افراد کی بازیابی میں دلچسپی سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ حکومت وقت کمیشن کے ساتھ پورا تعاون کرے گی تاکہ بلوچستان کے عوام کے اس دیرینہ مطالبہ کا کوئی قانونی حل نکل سکے، لیکن سیاسی حلقوں میں اس وقت مایوسی پھیل گئی جب وفاقی حکومت نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے اس کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔حال ہی میںشہباز شریف کی حکومت نے جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک واضح پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایک سات رکنی وفاقی وزراء کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ ہوں گے جبکہ رانا ثنا اللہ، شازیہ مری، اسد محمود، محمد اسرار ترین، فیصل علی سبزواری اور آغا حسن بلوچ اس کمیٹی کے رکن ہوں گے جو اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کرے گی۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے اقدام کو فوجداری جرم قرار دینے کامسودہ قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا تھا اور پھر اچانک انکشاف ہوا کہ یہ بل قانونی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی سینٹ سے لاپتہ ہوگیا۔اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کو چاہئے کہ اس بل کو قانونی شکل دے کر شہریوں کے لاپتہ ہونے کو فوجداری جرم قرار دے۔ اس کمیٹی کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کے ہر ضلع کا دورہ کریں اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کرے۔یہ کمیٹی بے گناہ افراد کو رہا کرنے کی سفارشات مرتب کرے اور باقی گم شدہ لوگوں کوسول عدالتوں میں پیش کرے۔ یہ کمیٹی ایک ایسا واضح قانون تیار کرے کہ آئندہ کوئی پاکستانی لاپتہ نہہو سکے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کے زیر سرپرستی ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس نے سال ہا سال اپنی کارروائیاں کیں لیکن انسانی حقوق کے اداروں نے انکی کارکردگی پر شدید تنقید کی۔ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح اس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انکے لیے عام معافی کا مشروط اعلان کیا ہے اسی طرح جلا وطن بلوچ رہنمائوں اور گمشدہ افراد کی عام معافی کا فوری اعلان کرے تاکہ پاکستان کی وفاقیت کو مضبوط کیا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین