• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ایک سال میں مَیں نے جو ایک ٹرینڈ دیکھا ہے، وہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ پاکستان میں جس کسی سے بھی بات ہوتی ہے، چاہے اسٹوڈنٹ ہو یا پھر کامیاب بزنس یا پھر ڈاکٹر یا صحافی، تقریباً سبھی ایک ہی بات پوچھتے ہیں وہ یہ کہ امیگریشن کے کہاں کہاں اور کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟وہ مجھ سے یہ سوال اِس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا مجھ پر خاص احسان رہا ہے کہ میں نے اپنا سارا اعلیٰ تعلیمی سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں طے کیا ہے۔ بیچلر ڈگری کے لیے میں نے انگلینڈ میں پڑھا، ماسٹرس کے لیے امریکا میں پڑھنے کا موقع ملا اور آج کل پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا میں موجود ہوں۔

امیگریشن کے مسائل اور پروگرامز سے میری ذاتی دلچسپی بھی ہے اور میں سوشل میڈیا پر ایسے مختلف گروپس پر نظر بھی رکھتا ہوں جن میں امیگریشن سے متعلق بات چیت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تقریباً ایک کروڑ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستانی شہری ملک سے باہر جانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ایمبیسی یا قونصلیٹ کے باہر لگی لمبی لائنوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ امریکی سازش کا شور مچانے والوں کو بھی اگر یہ کہا جائے کہ کل صبح زیرو پوائنٹ اسلام آباد میں امریکی سفارت کار محض چند لاکھ کے عوض امریکی ویزے بانٹیں گے تو وہاں اتنی لمبی قطار لگے گی کہ وہ شاید بنی گلہ تک ہی پہنچ جائے گی۔ لیکن پہلے جہاں صرف سلیکٹڈ کلاس جیسا کہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور اکائونٹنٹ وغیرہ یا پھر لیبر کلاس باہر کا رخ کرتی رہی ہے، اب یہ معاملہ دو لحاظ سے کچھ مختلف ہے۔

پہلا تو یہ کہ جہاں مخصوص لوگ معاشی یا پروفیشنل وجوہات کی وجہ سے بیرونِ ملک جاتے تھے، پاکستان کی اشرافیہ یا جو لوگ یہاں پر خوشحال زندگی گزار رہے تھے، وہ پاکستان میں رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کو یہاں کا رہن سہن اچھا لگتا ہے اور کچھ لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ عزت تو صرف اپنے ملک میں ہی ہے لیکن اب تو افسر شاہی اور کامیاب بزنس مینوں سمیت سب یہی سوچ رکھتے ہیں کہ اگر بیرون ملک مستقل سکونت نہ بھی اختیار کرنی ہو پھر بھی کوئی نہ کوئی ایسا آپشن ضرور ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ دوسرا فرق اُس جنون کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے جس بنا پر ہر کوئیبہر صورت بیرون ملک جانا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ جو اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بھی پوچھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جن ملکوں کا ویزا لگا ہوا ہے، وہاں جا کر سیاسی پناہ کیسے لی جا سکتی ہے یا پھر ایسے طریقوں پر سوچ رہے ہیں جو غیرقانونی بھی ہیں اور اخلاقی طور پر بھی ان کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

باہر جانے کیلئے لوگوں میں پائی جانے والی بےتابی کی ایک مایوس کن مثال سن کر تو آپ کے رونگٹے ہی کھڑے ہو جائیں گے۔ ہوا یوں کہ ایک جوڑے نے کینیڈا کی امیگریشن کے لیے دو سال سے درخواست دی ہوئی تھی، یہ معاملہ کورونا وبا کی وجہ سے بھی کافی تاخیر کا شکار ہوا۔ ان کے کیس کے کچھ مسائل بھی تھے جس کے بارے میں مَیں نے انہیں رہنمائی فراہم کی۔ چند روز قبل اُس جوڑے نے مجھ سے رابطہ کیا اور نہایت ’’افسوس‘‘ کے ساتھ بتایا کہ ان کے ہاں اب اولاد کا سبب پیدا ہوا ہے اور اُنہیں خدشہ ہے کہ کہیں اِس وجہ سے اُن کی امیگریشن کا معاملہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو جائے، اِس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسقاط حمل کروا لیں گے۔ میں نے ان سے جب پوچھا کہ کیا اس کی واحد وجہ صرف امیگریشن ہے؟ تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ یہ سن کر مجھے بےحد حیرانی بھی ہوئی اور اس سے کئی گنا زیادہ افسوس بھی۔ کسی نہ کسی طرح میں نے اُنہیں قائل تو کر لیا کہ اِس سے اُن کی امیگریشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ بھی ابھی طے نہیں ہے کہ اُنہیں امیگریشن ملے گی بھی یا نہیں، اِس لیے جو بھی فیصلہ لیں سوچ سمجھ کر لیں۔

ویسے میں سوچتا تھا کہ جب پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی تو تب ملک سے نکلے کا رجحان سب سے زیادہ ہوگا لیکن جیسے میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہم نیا موبائل خریدنے کے بعد فوراً اس پر کور اور اسکرین پروٹیکٹر لگوا لیتے ہیں کہ کہیں گر نہ جائے مگر موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ نہیں پہنتے، اِس طرح دہشت گردی سے زیادہ پاکستان میں پائی جانے والی معاشی بدحالی اِس امیگریشن اور برین ڈرین کی بڑی وجہ بن چکی ہے اور بن رہی ہے، پچھلے چند برسوں کے دوران تو اِس معاشی بدحالی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اور مہنگائی تو مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن لوگوں کی آمدن میں اُس نسبت سے اضافہ نہیں ہو رہا، روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے لوگوں کے اثاثے بھی آدھے رہ گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے، جس کی وجوہات پر بحث تو ہو سکتی ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایسی صورت حال میں لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ اگر کسی بھی طرح باہر کا رُخ کر سکیں تو کر لینا چاہیے۔ لیکن باہر کی زندگی کچھ آسان بھی نہیں ہے، جسے یقین نہیں وہ ان تمام ڈگری ہولڈرز اوورسیز پاکستانیوں سے پوچھ لے جو دنیا کے بڑے شہروں میں ٹیکسی چلا رہے ہیں۔

فیس بک پر ایک انجینئر نے پچھلے دنوں میسج کیا کہ وہ کینیڈا آنے کیلئے رہنمائی کہاں سے حاصل کر سکتا ہے؟ میں نے جب اس کی پروفائل پڑھی تو وہ ایک اچھی پوسٹ پر ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں میں تنخواہ بھی لے رہا تھا۔ میں نے جب اس سے یہ پوچھا کہ آپ پاکستان میں اچھی بھلی زندگی گزار رہے ہیں، آپ کو کیا شوق چڑھ گیا باہر جانے کا؟ تو ان کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی سیانے نے کبھی کہا تھا کہ اپنے بچوں کے لیے یا تو بہت سی جائیداد چھوڑنی چاہیے یا پھر کسی ایسے ملک کا پاسپورٹ جہاں ان کو اچھی تعلیم اور اس کے بعد روزگار کے اچھے مواقع مل سکیں۔ اس معاشی سرکس میں مَیں اتنا کمانے کے باوجود کوئی جائیداد تو بنا نہیں سکتا، اِس لیے اب اچھے پاسپورٹ کے حصول کی کوشش کروں گا۔

پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ معاشی سرکس جو پاکستان میں ہمیشہ سے چلتا رہا ہے، اس کو اگر اب بند نہ کیا گیا تو اِسی طرح برین ڈریں ہوتی رہے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین