• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستا ن کی نوزائیدہ جمہوریت ہمیشہ کی طرح پھر خطرے میں ہےاور اسے سب سے زیادہ خطرہ ان نام نہاد دانشوروں سے ہے جو عوام کے نام پر عوامی حاکمیت کی واحدنشانی یعنی جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے کیلئے بہت جلدی میں ہیں۔ان میں کئی تو ایسے بھی ہیں جو ماضی میں جمہوریت کے بڑے چمپئن رہے ہیں۔ اور بڑے فخر سے آمریت کیخلاف اپنی قربانیوں کے قصّے بیان کرتے رہے ہیں۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ جمہوریت سے کبھی بھی مخلص نہ تھے کیونکہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے لیڈروں کی بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کے باوجود ، دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جن قوموں نے انقلاب ِ فرانس کے بعد تیز ترین ترقی کے اہداف حاصل کئے ہیںوہ محض جمہوریت کی بدولت ہی اس مقام تک پہنچی ہیں۔گویا جمہوریت بطورِ نظام ِ حکومت کبھی ناکام نہیں ہوئی کیونکہ اسکے اندر جو احتسابی عمل کارفرما ہے وہ ایک بہتی ندی کی طرح اپنی گندگی کو کناروں پر دھکیلتا رہتا ہے شرط یہ ہے کہ ندی کے بہائو کو نہ روکا جائے۔
تاریخ ِ پاکستان کے تناظر میں تو یہ بات اور بھی اہمیّت کی حامل ہے کہ ہم نے جمہوریت اور جمہوری عمل سے روگردانی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔اور اپنے ملک کا بڑا حصّہ محض اس لئے کھو دیا ہے کہ آمریت اور آمرانہ سوچ کے حامل دانشوروں نے صوبوں کے مضبوط روابط کی بجائے’’مضبوط مرکز‘‘ کے نام پر محض چوبیس برس کے عرصے میںہی پاکستان کو دولخت کردیا اور بقیہ ماندہ پاکستان بھی انتشار کا شکار دکھائی دیتا ہے۔پاکستان دنیا کا وہ شاید واحد بد نصیب ملک ہے جہاں جمہوریت کو پروان چڑھنے کیلئے مناسب وقت دینے کی بجائے طرح طرح کے حکومتی بندوبست کئے گئے اگرچہ انہیں’’نظامِ حکومت ‘‘ کا نام دیا گیا۔لیکن وہ نظامِ حکومت نہیں محض عارضی انتظامات تھے جن میں قومی مفادات کی بجائے شخصی مفادات کو مدِّ نظر رکھا گیا۔ کیونکہ نظام ایک طے شدہ ، مربوط ، قدرتی قوانین پر مبنی وہ طریقِ کار ہے جو اپنے اندر خود احتسابی کا عمل بھی رکھتا ہے اور وہ دیرپا بھی ہوتا ہے۔ آمرانہ یا شخصی حکومتوں کا سب سے بڑا المیّہ یہ ہے کہ ایک طے شدہ نظام نہ ہونے کیوجہ سے ایک شخصی حکومت کی خوبیاں بھی دیرپا نہیں ہوتیں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر ایک تالاب میں صاف پانی بھی ڈال دیا جائے تو وہ نکاس نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک صاف نہیں رہتا بلکہ اس پر کائی اگنے لگتی ہے اور وہ گندہ ہوجاتا ہے جبکہ جمہوری نظام ایک ایسی بہتی ندی کی مانند ہے جس میں گندہ پانی بھی آہستہ آہستہ صاف ہونے لگتا ہے بشرطیکہ ندی کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان گونا گوں مسائل سے دوچار ہے لیکن کیا ان دانشمندوں نے کبھی اس پر غور بھی کیا ہے کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ پاکستان میں ہر آمر نے نت نئے تجربات کئے لیکن اسے دنیا تو کیا پاکستان میں بھی مستقل قبولیت نہ مل سکی۔ اور قوم کو ہر مرتبہ جانی و مالی قربانیاں دیکر جمہوریت کو بحال کرنا پڑا ۔ جسے کچھ عرصے کے بعد کچھ مخصوص مفادات کے تحت پھر قتل کردیا جاتا رہا۔ آمریت سے جمہوریت کے اس سفر میں پوری قوم ایک دائرے میں حرکت کرتی رہی اور ترقی کی طرف کوئی فاصلہ طے نہ ہوسکا اور یہی اس قوم کی تباہی اور تنزّلی کی وجہ ہے۔ ہر آمرنے اپنے مخصوص مفادات کے تحت جو اقدامات کئے وہ اکثر اوقات اپنے پیشرو آمروں کے طرزِ عمل سے قطعی مختلف تھے۔ محض اس امید پر کہ شاید آمریت ایک مستقل نظام کی شکل اختیار کر لے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکاکیونکہ آمریت بذاتِ خود ایک غیر فطری طریقِ کار ہے۔ جو اجتماعی شعور کی نفی کرتا ہے اور انسانی معاشرے کے اتحاد اور ترقی کیلئے ضروری ہے کہ شخصی اقتدار کی بجائے اجتماعی اقتدار کو فروغ دیا جائے۔ جب تک دنیا شخصی آمریت کے چنگل میں گرفتار رہی ہر طرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ آمروں نے ہر اس اصول کو برباد کر کے رکھ دیا جو ان کے شخصی اقتدار کیلئے خطرہ تھاحالانکہ جس کے بغیر اجتماعی ترقی اور فلاح و بہبود ممکن ہی نہ تھی۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ایسے دانشور اور اینکر پرسن جو دن رات جمہوریت کی تحقیر کرتے رہتے ہیں ۔ اور شخصی آمریت مسلّط کرنے کیلئے دہائیاں دیتے ہیں۔ پاکستان میں ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں ہونے والے عظیم المیوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن نجانے کس بنیاد پر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ ضروری تو نہیں کہ ہر آمر ہی برا ثابت ہو۔ حالانکہ دنیا کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ آمریت کہیں بھی ایک نظام ِ حکومت کے طور پر کامیاب نہیں ہوئی ۔ اس کے اندر انسانی اقدار کی نفی کے حوالے سے پکتا ہوا لاوا ایک نہ ایک دن ضرور اسے بہا کر لے جاتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں ہر وقت اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے اور اس کے اندر حکومت ِ وقت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور طاقت موجود ہوتی ہے ۔ جو رُکے جذبات کو سیلابی ریلے میں تبدیل ہونے اور بحرانوں کی شکل اختیار کرنے سے روک دیتی ہے جس کا شکار ہمارے جیسے ممالک اکثر ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل میں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے وہ بھی کھو دیتے ہیں دُکھ تو یہ ہے کہ ایسے دانشوروں کو اس نظام پر کوئی بھروسہ نہیں جس پر چل کر ساری مہذب دنیا نے ترقی کی ہے۔ وہ آمرانہ طرزِ حکومت پر کسی ’’مسیحا ‘‘ کی آمد کی توقع تو رکھتے ہیں۔ جو نا ممکنات میں سے ہے لیکن انہیں جمہوریت میں کسی بہتر حکمران کے آنے کی امید نہیں ہوتی جو زیادہ قرینِ قیاس ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکمراں طبقے جمہوریت کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتے۔ لیکن وہ بقراط یہ تو بتائیں کہ مکمل اور میچور جمہوریت کس کا ر خانے میں تیار ہوتی ہے کہ اسے خرید کر چند ماہ میں نافذ کردیا جائے جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے۔ اسکی بلوغت کیلئے صبر اور وقت درکار ہے۔ کیا بچّے کو محض اس لئےقتل کردیا جائے کہ وہ عقل و شعور کا مظاہرہ بالغ افراد کی طرح نہیں کر رہا؟ خدارا اگر ہمیں بوجوہ کوئی حکمراںپسند نہیں تو ضرور اس کی مخالفت کیجئے تاکہ بہتری کا ماحول پیدا ہوسکے ۔ لیکن وہ شاخ مت کاٹئے جو آشیانے کیلئے ضروری ہے۔ محض عوام کے مسائل عوام کو یاد دلا کر مشتعل کرنے اور جمہوری نظام سے بددل کرنے سے انکا کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا بلکہ کنفیوژن اور انتشار کی کیفیت بڑھ جائے گی۔ انہیں مسائل کے حل کا کوئی حقیقی راستہ دکھائیے ۔ اگر آپ کے پاس ایسا کوئی شافی حل نہیں تو پلیز انتظار کیجئے … جمہوری نظام چلنے دیجئے ۔ وہ اپنے لئے بہتری کا راستہ خود بنا لے گا کیونکہ دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ صرف جمہوریت ہی عوامی مسائل کا حل دے سکتی ہے ۔ باقی تمام راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔
تازہ ترین