• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیل ملز دھماکے نے پولیس سسٹم پر کئی سوال اٹھا دیئے

Explosion At Steel Mills Raised Several Questions On The Police System
افضل ندیم ڈوگر...کراچی میں اسٹیل ملز کے باہر سڑک پر پریشر ککر بم کی موجودگی اور پھر ریموٹ کنٹرول سے دھماکےنے شہر میں پولیس سسٹم پر کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔

پولیس بم دھماکے کو رکوا سکتی تھی لیکن بم کو دیکھ دیکھ کر پولیس اہلکار گزرتے رہے اور شہریوں کی مدد کیلئے کوئی نہ رکا البتہ بم پھٹنے کے بعد پولیس، رینجرز اور دیگر ایجنسیوں کے قافلے پہنچ گئے۔

کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز کے قریب نیشنل ہائی وے کی گرین بیلٹ پر شاپنگ بیگ میں مشکوک پریشر ککر پیر کی صبح 8 بجے ہی دیکھ لیا گیا تھا، کچھ شہریوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر شاپنگ بیگ کھول کر دیکھا اور حقیقت میں بم ہونے کی وجہ سےعلاقے کے لوگ کو آگاہی دلائی جو اس مقام سے دور چلے گئے۔

ایسی صوررتحال میں دنیا بھر میں کیا کیا جاتا ہے؟ یہی ناں کہ فوراً فون کرکے پولیس کو طلب کیا جاتا ہے، عینی شاہدین کے مطابق بم کے آپس پاس موجود لوگوں کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور سب کی جان میں جان آئی کیونکہ کسی فلمی سین کی طرح ہوٹر بجاتے ہوئے پولیس موبائل میں کئی پولیس اہلکاروں کی نفری خود ہی وہاں پہنچ گئی، لوگوں نے پولیس اہلکاروں کو وہاں نصب بم کے بارے میں بتانا شروع کیا، مگر یہ کیا؟ بم کو دیکھ کر پولیس موبائل میں موجود اہلکار فوراً چلتا بنے۔

لوگوں کی جانب سے اہلکاروں کو پولیس کا فرض یاد کرانے کی کوشش کی گئی تو ان میں سے ایک پولیس اہلکار نے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے کہا کہ ’’چلو چلو یہ ہمارا کام نہیں ہے‘‘۔

عینی شاہدین کے مطابق اس کے بعد کچھ لوگوں نے مددگار پولیس کو 15 پر فون کرکے بم کی اطلاع دی مگر وہاں سے بھی مدد کے لئے کوئی نہیں آیا، تھوڑی دیر بعد ایک اور پولیس موبائل آتے ہوئی دکھائی دی جو نیشنل ہائی وے کے اس مقام سے تیزی سے گزر گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق اس دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو پولیس اہلکار موقع پر پہنچے، شہریوں نے انہیں روک کر پریشرککر بم سے آگاہ کیا مگر وہ بھی لاتعلق ہوکر نکل لئے جس کے کچھ دیر بعد چینی باشندوں کی گاڑی قریب سے گزری تو دہشت گردوں نے بم دھماکا کردیا۔

پولیس حکام کے مطابق بم دھماکا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا، شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جانیں بچائیں مگر دہشت گردوں کے مبینہ ٹارگٹ چینی باشندے کو زخمی ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق پولیس اہلکار اگر کوشش کرتے اور فرض نبھاتے تو تیکنیکی مہارت سے پریشکر ککر میں بنائے گئے بم کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکتا تھا اور اس بم دھماکے کو روکا جاسکتا تھا، یہ نہیں تو پولیس اہلکار سڑک کو بند کرکے چینی باشندے سمیت دو افراد کو زخمی ہونے سے بچا سکتے تھے، اس کے ساتھ ہی پولیس اہلکار اگر فرض نبھاتے اور چالاکی دکھاتے تو ریموٹ رکھنے والے دہشت گرد کو پکڑا بھی جاسکتا تھا مگر ان پولیس اہلکاروں نے شاید اسے فرض نہیں جانا اور ان کا کام کچھ اور ہی تھا جسے کرنے کے لئے وہ جلدی جلدی روانہ ہوگئے۔

قانونی ماہرین کے مطابق پولیس اہلکاروں کا یہ منفی رویہ پہلی بار سامنے نہیں آیا بلکہ اکثر ایسا رپورٹ ہوا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق یہ پولیسنگ نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی ہے۔

اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل پولیس سندھ اے ڈی خواجہ سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس امر کی تحقیقات کرا رہے ہیں کہ اسٹیل ٹاؤن میں بم دھماکے سے قبل نشاندہی کرنے کی صورت میں گزرنے والی پولیس نے فوری اقدامات کیوں نہیں کئے۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ پولیس اہلکار خواہ کسی بھی شعبے کے ہوں شہریوں کی جان بچانے کے لئے انہیں مدد میں پہل کرنی چاہیے، کراچی پولیس چیف مشتاق مہر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ بم دھماکے کی انکوائری کے ساتھ ساتھ غفلت کے مرتکب اہلکاروں کی بھی سرگرمی سے تلاش کی جارہی ہے۔

بعداذاں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد نے میڈیا پر آکر کہا کہ بم دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس سرگرم ہوگئی ہے،اس کے ساتھ فرض چھوڑ کر بھاگنے والے اہلکاروں کو بھی تلاش کیا جارہا ہے، جس کیلئے علاقے سے سی سی ٹی وی کیمروں کو تلاش کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین