• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکیل کو زکوٰۃ کا مَصرف تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے

تفہیم المسائل

سوال: مرد نے اپنی بیوی سے کہا : ایک شخص کو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پیسے چاہییں اور بیوی نے 10000ہزار اس شخص کے لیے دے دیے، لیکن اس کے خاوند نے صلہ رحمی کی نیت سے ان میں سے کچھ پیسے اپنے بہن بھائیوں کو دے دیے، بہن بھائی مالی طور پر کمزور ہیں، کیا یہ صورت جائز ہو گی؟ (نورالعارفین)

جواب: جب ایک شخص (بیوی)نے دوسرے شخص(شوہر) کواپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کا وکیل بنایا اور مَصرَف کو متعین کرکے زکوٰۃ کی رقم دی ہے، تو وکیل(شوہر) کو مَصرَف بدلنے کا اختیار نہیں ہے، وکیل نے اس میں تصرف کر کے جو رقم اپنے بہن بھائیوں کو دی ہے، یہ غلط کیا ،اس پر انھیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی بیوی کو اس پر رضا مند کرنا چاہیے۔

علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:ترجمہ: ’’وکیل کو تصرّف کا فائدہ مؤکل کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور جب مؤکل نے فلاں (یعنی ایک معیّن شخص) کو دینے کا وکیل بنایا ہے تو وہ کسی اور کو نہیں دے سکتا، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،ج:2،ص:269)‘‘۔ نیز زکوٰۃ کا مَصرَف بننے کے لیے شرعی مستحق ہونا ضروری ہے، مالی طور پر کمزور ہونا ایک مبہم اصطلاح ہے ، کیونکہ بعض مالدار لوگ اپنے ایسے عزیز رشتے داروں کو بھی جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے، اپنے مقابلے میں مالی طور پر کمزور سمجھتے ہیں۔ پس مذکورہ بالا صورت میں چونکہ شوہر نے تعدّی کی ہے، یعنی حد سے تجاوز کیا ہے، تو اگر بیوی اس پر راضی ہوجاتی ہے تو فَبِھا، ورنہ وہ شوہر سے تاوان کا مطالبہ کرسکتی ہے۔