• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آج تک کوئی جمہوری وزیرِ اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکا اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل غیر آئینی مداخلت کی وجہ سے کبھی پاکستان کو پہلا متفقہ جمہوری آئین دینے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ ٔدار پر لٹکایا گیا، کبھی ان کی بیٹی اور پاکستان کے میزائل پروگرام کا آغاز کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو 2مرتبہ وقت سے پہلے ختم کردیا گیا اور پھر انہیں ایک جلسہء عام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

 اسی طرح سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو بھی تین مرتبہ وقت سے پہلے ختم کرکے انہیں جلا وطن کردیا گیا۔ اس دوران بلوچستان سے ظفر اللہ جمالی اور جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے وزرائے اعظم کو بھی مختلف حیلے بہانوں سے اقتدار سے محروم کیا گیا۔

 لیکن ان نا انصافیوں کے باوجود نہ تو کسی وزیرِ اعظم اور نہ ہی انکی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ریاست ِ پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا۔ البتّہ ان سیاسی جماعتوں نے ڈکٹیٹر وں کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریکیں ضرور چلائیں اور پیپلز پارٹی نے تو اس میں بے شمار جانی قربانیوں کے علاوہ کوڑوں اور قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

 دوسری طرف عمران خان ہیں جنہوں نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد جو طرزِعمل اور رویّہ اپنایا ہے ۔ وہ ناقابلِ فہم ہے ۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنہیں عدم اعتماد کے جمہوری اور آئینی طریقے سے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا۔

لیکن انہوں نے اپنی اقتدار سے معزولی کو اچانک امریکی سازش قرار دے کر قومی اداروں کے خلاف کردار کشی کی خوفناک مہم شروع کردی۔ جس میں تازہ انکشاف پاکستان کے تین حصّوں میں تقسیم ہو جانے کاہے۔

 بقول ان کے ان کی اقتدار سے بیدخلی کی وجہ سے نہ صرف پاکستان تین حصّوں میں تقسیم ہو سکتا ہے بلکہ ملک کا ایٹمی پروگرام بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جس کو شروع کرنے یا پایہ تکمیل تک پہنچانے میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں، عمران خان کی سیاست میں آمد کے بعد اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان کو اقتدار میں لانے کی کوششوں کے دوران کئی مرتبہ عمران خان کی ذہنی حالت اور نفسیاتی کیفیت کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ اور اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ عمران خان کا امیج ایک ’’دیوتا‘‘ کے طور پر بنا رہی ہے۔

وہ عمران جیسے شخص کو فاشسٹ اور ہٹ دھرم تو نہیں بنا دے گا کیونکہ وہ اس سے پہلے اپنی ذاتی زندگی میں بھی بعض حوالوں سے خاصے ’’ متنازعہ‘‘ رہے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اقتدار میں چور دروازوں سے داخل ہونے کے بعد عمران خان نے جس ناااہلی، ضد اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کی روایت کامظاہرہ کیا اس نے نہ صرف پاکستان کو معاشی ، سیاسی اور خارجہ محاذ پر تباہ و برباد کر دیا بلکہ کرپشن اور بد عنوانیوں کی نئی داستانوں کو جنم دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے رویے کی وجہ سے پہلے اس کے قریبی عزیز اور ساتھی اس سے دور ہو گئے اور اس کے بعد اس کے اتحادیوں اور مہربانوں نے بھی اس سے فاصلہ اختیار کرلیااور فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ سے خود کو سیاسی مداخلت سے دور رکھیں گے۔

 یہ ایک احسن فیصلہ تھا کیونکہ اس سیاسی مداخلت نے پاکستان کو بہت سے صدمات سے دوچار کیا تھا۔ لیکن یہ فیصلہ لاڈلے عمران خان پر بجلی بن کرگِراکیونکہ اسے اس کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرنے کی عادت ڈال دی گئی تھی۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائرلانے کا دعویدار اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے پر خوش ہونے کی بجائے بضد ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح اسکی تباہ کن پالیسیوں کی حمایت کیوں نہیں کر رہی وہ اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا ہے جو کہتا تھا کہ اسے اقتدار کا لالچ نہیں۔ لیکن اقتدار کیلئے وہ ہر آئین شکنی اور ریاست دشمنی پر اترا ہوا ہے۔ اور KPKکی حکومت کے وسائل کے ذریعے دارالحکومت پر دوبارہ چڑھائی کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔

پاکستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے ۔ جبکہ وہ ساری حدیں پھلانگ چکا ہے۔ اگر کسی اور سیاسی پارٹی یا لیڈر نے ریاست کے خلاف اتنا معاندانہ رویّہ اختیار کیا ہوتا تو کیا ریاستی ادارے اسے بھی ایسے ہی کُھلاچھوڑ دیتے ؟ آج ملک مہنگائی اور معاشی تباہی کے جس موڑ پر ہے وہ راتوں رات نہیں آئی بلکہ اس کے ذمہ دار نااہل عمران اور اس کے سرپرست ہیں۔

 لیکن عمران خان اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر ملک کے حصِّے بخرے کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک لاڈلے اور ضدی بچّے کی طرح ہر چیز تباہ کرنا چاہتا ہے کہ اگر وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ کیا عمران خان نے پاکستان کو یرغمال بنا لیا ہے؟

تازہ ترین