• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی آپ چھوٹے منہ سے بڑے بڑے دعوے سنیں تب سمجھ جائیے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ بلکہ دال میں کچھ ضرورت سے زیادہ کالا ہے۔ دال کم، سب کچھ کالا دکھائی دیتا ہے۔ اس نوعیت کی کارستانی اگر چھوٹے موٹے عرصہ تک محیط ہوتی تو پھر شاید قابل فراموش ہوتی… مگر اس نوعیت کی کارستانی ہم تقریباً 75 برس سے بھگت رہے ہیں۔ اب تو نہ رہا ہے کسی کا اعتبار اور نہ رہا ہے کسی پر یقین۔ سنے ہوئے سب دعوے، دھوکا اور فریب لگتےہیں۔ اعتراض اس لیے نہیں کرتے کہ ڈر لگتا ہے، کہیں غائب نہ کر دیے جائیں۔ دیگر دعوے درکنار، ہم ابھی تک اظہار کی آزادی کی سرحدوں کا تعین کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پرواز میں کوتاہی کی ہوشربا باتیں ہم نے بہت سنی ہیں۔ مگر پرواز کے دوران وہ کونسی حدیں ہوتی ہیں۔ جن کو پار کرنے سے پروں میں آگ لگ جاتی ہے؟ یعنی مصیبتیں گلے پڑ جاتی ہیں؟ ہم نہیں جانتے۔

دعویدار خود بھی ہمیں کچھ نہیں بتاتے۔ وہ صرف ہمیں باور کرواتےرہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی موضوع پر مکمل طور پر اظہار کی آزادی ہے۔ اظہار کی آزادی میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہ ہمیں یقین دلاتےرہتے ہیں کہ ہم کسی بھی موضوع پر لکھ سکتے ہیں۔ کھل کر بات کر سکتے ہیں ۔ لیکچر دے سکتے ہیں ۔ اقتدار اعلیٰ کی طرف سے یہ یقین دہانی ہے۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ یقین دہانی پر یقین کریں یا پھر مسترد کر دیں۔ اس نوعیت کی انیک یقین دہانیاں میں نے مسترد کر دی ہیں۔ اس انکار کے لئے میرے پاس وجوہ ہیں۔

تاریخ، پر لکھنا یا بولنا بظاہر آسان سمجھا جاتا ہے ۔ تاریخ ماضی کی میراث ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یا ہو رہا ہے، لا محالہ ماضی میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ تاریخ گزرے ہوئے وقتوں کی دستاویز ہے، ریکارڈ ہے۔ اس میں چھوٹی سے چھوٹی ہیرا پھیری کوبھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ جرم صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ تاریخ میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ مگر صدیوں سےتاریخ میں ردو بدل ہو رہا ہے۔ تاریخ کو کسی مطلق العنان کی مرضی اورمنشا کے مطابق تحریر نہیں کیاجا سکتا۔ مگر صدیوں سے حکمران اور بااثر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تاریخ کو محفوظ کرواتے آرہے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم ان کڑوے حقائق سے واقف ہیں۔ فقیر کے مطابق تاریخ کا سب سے زیادہ ستیاناس تب ہوتا ہے جب زبانی کلامی گردش کرنے والے قصے کہانیوں کو تاریخ کا معتبر باب بنا دیا جاتا ہے۔ تاریخ کے الجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل صرف ہماری تاریخ تک محدود نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کی اپنی اپنی تاریخ اسی نوعیت کے مسائل میں جکڑی ہوئی ہے۔ مگر ان ملکوں اور ہمارے ملک کی تاریخ کے برعکس متضاد مسائل ہیں۔ دیگر ممالک میں تاریخ پر تحقیق کی اجازت ہے۔ تاریخ کے کسی باب کی آپ چھان بین کر سکتے ہیں۔

مگر ہمارے ہاں تاریخ کے بارے میں تحقیق کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو جو مواد تاریخ کے نام پر پڑھنے کے لئے دیا گیا ہے۔ اسی مواد پر آپ کو اکتفا کرنا ہے۔ کسی قسم کی چھان بین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگرآپ چھان بین سے باز نہیں آتے، تو پھر آپ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ مثلاً تقسیم ہند تاریخ کا مشہور باب ہے۔ برصغیر کی تاریخ تقسیم ہند کے ابواب کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے زور دار تقاضے پر انگریز نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ کیا تھا۔ تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں جاننا چاہتا ہوں کہ تقسیم ہند کے اقرار نامےمیں ایسے ہندو اور مسلمانوں کے بارے میں کیا لکھا ہے کہ جو مسلمان تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں رہ جائیں گے اور ایسے ہندو جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں رہ جائیں گے، کیا تقسیم ہند کے بعد اپنے ہی وطن میں اقلیت کہلوانے میں آئیں گے؟ اور پھر بغیر علانیہ، اپنے وطن میں یہ دو نمبر شہری Second rate citizen بن کر باقی ماندہ زندگی گزار دینگے؟ موضوع کے ایسے پہلو پر چھان بین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم تو یہ بھی زیر بحث نہیں لا سکتے کہ ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے جڑواں بچے ایک یا ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سیاسی بیان بازی سے لوگ ایک نہیں ہوتے۔ مساوی سلوک سے لوگ ایک ہوتے ہیں اور ایک دوسرےکے قریب آتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے انیک اسباب ہیں۔ مگر سب سے بڑا سبب ہے بنگالیوں کے ساتھ طاقتور مغربی پاکستان والوں کی افسوسناک عدم مساوات۔ مگر اس موضوع پر بات چیت کرنا، لکھنا، پڑھنا ممنوع ہے۔ اگر آپ نے خلاف ورزی کی تو پھر آپ پر غداری کی تہمت لگ سکتی ہے۔

مگر، میں کیوں کڑوی کسیلی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں؟ مجھے ایک عام مرض کے بارے میں بات کرنی تھی ۔ کم یا زیادہ یہ مرض ہم سب کو لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض کو کہتے ہیں، ’’میں کا مرض‘‘۔ اگر بڑھ جائے تو پھر ’’میں کا مرض‘‘ لا علاج ہو جاتا ہےاور جان لیوا ثابت ہوتاہے۔ اس مہلک مرض کے جراثیم کا نام ہے Ego ۔اردو میں ایگو کو کہتے ہیں، انا، خودی، عام طور پر انا اور خود ی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میں بہت ہی کم علم ہوں۔ میں سمجھ نہیں سکتا کہ علامہ اقبال نے کس حوالے سے Ego یعنی انا،خودی کو اسقدر اعلیٰ پذیرائی دی ہے۔ کہتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

دیگر حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ہمیں گارنٹی دی ہے، یقین دہانی کروائی ہے کہ ملک میں اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ کیا کریں کہ حکومتوں کی گارنٹی اور دعوئوں سے یقین اٹھ چکا ہے ۔ ’’خود ی کو کر بلند اتنا‘‘ کی تشریح گلے پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا اس موضوع پر بات نہیں ہو گی۔ بات ہو گی عمران خان کی انا کی ، خود ی کی۔ میں نہیں جانتا کہ علامہ اقبال نے خودی کو کہاں تک بلند کرنے کی بات کی ہے کہ خدا خود فاسٹ بالر سے پوچھے کہ بتا تیری منشا، تیری رضا کیا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین