• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات وہ عظیم ذات ہے جن کے تذکرہ پاک کی خاطر دہن کو مشک و گلاب سے ہزار بار دھونا پڑتا ہے۔وہ عظیم شخصیت جنکی توصیف میں خود رب العالمین رطب اللسان ہے،جنکی شان 1400سال سے بیان ہورہی ہے لیکن انکے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہیں ہوا۔حضرت حسان بن ثابت ہوں یا سعدی شیرازی، امام احمد رضا بریلوی ہوں یا حافظ مظہر الدین،حضور ضیا الامت ہوں یا مولانا مودودی،نظم و نثر میں آپکے اوصاف کےذکر جمیل کا ایک دبستان آباد ہے۔ان شخصیات کے ہوتے ہوئے میں کیا اور میری بساط کیا کہ میں اپنے آقا و مولا ﷺ کی شان میں کچھ کہہ سکوں،تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مومن کا دل محبت رسول ﷺ سے آباد ہے۔ہر مسلمان کی رگوں میں عشق رسول خون بن کر دوڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آقائے دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہمیشہ سے مسلمانوں کیلئے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔ہر مومن خود کو اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر خیال کرتا ہے۔آپکے ذکر سے قلوب کو راحت ملتی ہے اور توصیف سے جاں کو سکون ملتا ہے۔اسلام دشمن طاقتوں کو بھی مسلم دنیا کی حساسیت کا احساس ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنے کیلئے آقائے دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات پر مختلف اوقات میں رکیک حملے کرتے رہتے ہیں۔بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی منظم مہم کے تحت کیا جا رہا ہے۔تاہم اسلام کی چودہ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہےکہ مسلمانوں نے کبھی اس معاملے پر نہ تو کمزوری دکھائی ہے اور نہ ہی اپنے آقا و مولا ﷺ کی شان پر کوئی سمجھوتہ کیا ۔مسلمان غالب رہے ہوں یا مغلوب،آقائے دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ان کا جذبہ ایک سا رہا ہے۔سپین میں جب مسلمانوں کا اقتدار عروج پر تھا تب عیسائی پادریوں کی جانب سے آقائے دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا لیکن اس وقت کی حکومت اور علماء نے یک جان ہوکراس سازش کا مقابلہ کیا۔ برصغیر میں جب مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے تب انگریز سرکار کی سرپرستی میں اسلامی عقائد اور رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی گستاخی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔تب بھی مسلمانوں نے انہیں ہر میدان میں شکست فاش دی۔1929میں راج پال نامی گستاخ نے ایک دل آزار کتاب شائع کی۔مسلمانوں نے پورے ہندوستان میں اس کے خلاف رد عمل ظاہر کیااور اس کا اختتام غازی علم دین شہید کے ہاتھوں راجپال کے قتل کی صورت میں سامنے آیا۔17 مئی 2022 کو بھارت میں ایک ٹی وی شو کے دوران بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان ''نوپور شرما'' نےآقائے دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جملہ بولے۔اس کے خلاف بھارتی مسلمانوں نے اندراج مقدمہ کی درخواست دی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔اور پھر پورے ہندوستان میں اس گستاخی کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔اس احتجاج کے دوران کئی مسلمان شہید ہوئے۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری مسلم دنیا نے اس کا نوٹس لیا۔سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، انڈونیشیا عراق اردن، لیبیا، کویت، قطر، بحرین مالدیپ، افغانستان اور پاکستان سمیت او آئی سی نے بھی شدید رد عمل دیا یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اپنے ایک بیان میں تمام مذاہب کے احترام پر زور دیا۔فاشٹ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کرایا،ٹرین میں مسلمانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا،اسی کے دور میں بابری مسجد پر حملے ہوئے،ایک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور اس کے انتہا پسندانہ رویے کی وجہ سے بھارت کی تمام اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ۔مسلمانوں کیساتھ ساتھ عیسائی، دلت،سکھ اور پارسی بھی ہندوؤں کے انتہا پسندانہ رویوں کا شکار ہیں۔بھارت کے سیکولرازم کا پردہ بری طرح چاک ہو چکا ہے۔آج یہ نہرو اور ابوالکلام آزاد کا بھارت نہیں بلکہ مودی جیسے فاشسٹ اور نسل پرست متعصب شخص کا ملک ہے۔ بھارتی وزیراعظم، وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ میں سے کسی نے تادمِ تحریر اپنی جماعت کے رہنماؤں کے رویے کی مذمت نہیں کی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔مودی کی اقلیت دشمن کارروائیوں کی وجہ سے بھارت تیزی سے ٹوٹنے کے مرحلے کی طرف جارہا ہے۔10 سے زائد ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔اور وہ وقت دور نہیں جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے گستاخی کرنے کی پاداش میں ان کا یہ ملک ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔بھارت میں ہونے والے گستاخانہ واقعہ کے بعد دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستانی قوم نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا لیکن حکومت روایتی اور سرکاری رد عمل سے آگے نہ بڑھ سکی۔

جناب وزیراعظم!بعض معاملے سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر دیکھنے چاہئیں۔ آپ بذات خود ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے دعویدار ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ پر برا وقت آیا تھا تو اسی بارگاہ میں آپ کو پہلی پناہ نصیب ہوئی تھی۔آج اسی بارگاہ سے وفا کرنے کا وقت ہے۔دفتر خارجہ میں سفیر کو طلب کرنا بھی مناسب،پارلیمنٹ میں چند گھنٹوں کے لئے اس معاملے پر بحث کرنا بھی درست،لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا یہ اقدامات کافی ہیں؟آپ تمام اسلامی ممالک کے سربراہوں سے رابطہ کرکے اس معاملے پر اجتماعی موقف اپنانے کی کوشش کریں،اقوام متحدہ کے فورم پر موثر آواز بلند کریں،سابق وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جس موثر انداز میں نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان بیان کر کے امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی تھی آج اسی موثر آواز کی ضرورت ہے،سیاسی مصلحتیں چھوڑیے،اور وہ کردار ادا کیجئے جس کا قوم آپ سے تقاضا کر رہی ہے، ناموس رسالت ﷺ کے معاملہ پر کوئی کوتاہی ہوئی تو یہ قوم آپ کو معاف نہیں کرے گی اور پھر آخرت کا معاملہ بھی تو ہے ،وہاں کیا جواب دیں گے؟

تازہ ترین