• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلو تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا ،جرمن وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے کشمیر کے تنازعہ کے تصفیہ کے لئے وہی موقف اختیار کیا جو پاکستان کا ہے کہ اس تنازعے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سامنے آنا چاہیے ۔ وہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے کردار کا بھی ذکر کیا ۔ یہ جرمنی کی اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان کے موقف کی درستی پر حمایت کا اعلان ہے ۔ جرمنی اس وقت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور دیگر اداروں میں بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی مستقل طور پر کشمیر کے حوالے سے ایسا ہی موقف رکھتا تھا ، جب انڈیا نےاپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو حذف کر دیا تو اس وقت دلی میں متعین جرمن سفیر نے اس کو بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا اور ویسے بھی جرمنی اور انڈیا سن دوہزار سے انڈو پيسیفک میں اسٹرٹیجک شراکت دار بھی ہیں۔ بھارت کی معیشت بھی بہت پھل پھول رہی ہے جب کہ ہم معاشی میدان میں کہاں کھڑے ہیں سب پر عیاں ہے؟ ۔ ان تمام حالات میں جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے اس انتہائی اصولی مؤقف کی حمایت سفارتی دنیا میں پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ اس معاملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے کہ اگر پاکستان مؤثرسفارت کاری کرے اور اپنا موقف دنیا تک سلیقہ سے پہنچائے، بھارتی موقف کے باعث اس خطے بلکہ اس خطہ کے باہر بھی امن اور ترقی کو جو خطرات درپیش ہیں ان کو سلیقے سے بیان کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی مخالفت میں بھارت کی بڑی معیشت کے باوجود مختلف ممالک کو ہم نوا نہ بنایا جا سکے ۔ پاکستان سفارتی معاملات میں اتناغیر فعال ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوا ،یہ یقینی طور پر ایک نئی صورتحال کا پیش خیمہ تھا اس حوالے سے حکمت عملی کے تحت برطانیہ سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت تھی ۔انڈیا تو اس اکتوبر میں برطانیہ سے تجارتی معاہدہ کرنے کے قریب ہے مگر گزشتہ حکومت میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اس معاملے کے تمام زاویوں کو سامنے رکھتے ہوئے،اس حوالے سے فوری طور پر ایک ریسرچ پیپر تیار کیا جائے۔زبیر گل، راجہ ظریف اور ڈاکٹر خالد جرار( پی ایچ ڈی اکنامک ڈپلومیسی ) جیسے برطانیہ میں متحرک پاکستانیوں کو لابنگ کرنے کے لئے ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ انڈیا پھر بازی نہ لے جائے ۔ اسی طرح کا ایک اور خوشگوار جھونکا جاپانی کاروباری افراد کی آمد ہے۔ جاپان پاکستان سے افرادی قوت کا بھی خواہش مند ہے ۔ ان معاملات میں بھی ہر زاویے کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل تیاری کی جائے اور جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کی متحرک آواز ملک نور اعوان اور عرفان صدیقی جیسے افراد کو سرکاری حیثیت دیتے ہوئے جاپان میں وطن عزیز کے کاروباری مفادات کے تحفظ کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو مہینوں میں نتائج کا حصول ممکن ہے ۔ جاپان سے یاد آیا کہ اس کے اردگرد بھی بہت ہلچل مچی ہوئی ہے تائیوان چین کے حوالے سے ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے چین کو مستقل طور پر پریشان رکھا جاتا ہے ۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ تائیوان کمیونسٹ انقلاب سے قبل چین کی مرکزی حکومت کا حصہ تھا اور اسی سبب سے پاکستان بجا طور پر " ایک چین پالیسی " کا حامی ہے ۔تاہم اب تائیوان کو آگے کر کے چین کو دوبارہ سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ تائیوان نے باقاعدہ آزادی کا اعلان نہیں کیا اور اس کے دنیا کے مختلف ممالک سے محدود تعلقات ہیں مگر جب صدر بائیڈن نےکواڈ اجلاس کے موقع پر یہ بیان دیا کہ امریکہ تائیوان کے دفاع میں آنے کا پابند ہے تو یہ فوجی طاقت اور اس کی ممکنہ مداخلت کا ایک واضح اظہار تھا ۔ حالاں کہ صدر بائیڈن کے بیان کے اگلے دن امریکی حکام نے ان کے بیان کی ہزار تاویلات پیش کیں مگر سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکی صدر کا کسی بھی معاملے میں بیان کیا حیثیت رکھتا ہے اسی دوران امریکہ نے تائیوان سے ٹریڈ اور ریگولیشنز پر مشترکہ اقدار اور مارکیٹ کی بنیاد پر معیشت کے نعرے کے تحت مذاکرات کا آغاز کر دیا ۔ ایک چین نظریہ کے تحت چین کے لیے یہ تمام صورتحال قابل قبول نہیں ۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ کی اپنے جاپانی ہم منصب سے 18 مئی کو ویڈیو کال پر بات ہوئی جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ " جاپان کو خود کو امریکہ اور دوسروں کے ساتھ ایسے طریقوں سے نہیں باندھنا چاہیے جس سے چینی خودمختاری، سلامتی اور مفادات کو نقصان پہنچے ۔‘‘ اسی لئے جب گزشتہ مہینے جاپان میںکواڈ کانفرنس ہو رہی تھی تو چھ چینی اور روسی اسٹرٹیجک بمبار طیارے ، ایک نگرانی کرنے والے جہاز کے ساتھ جاپانی علاقے میں محو پرواز تھے جو واضح پیغام تھا کہ چین ان اقدامات کو کتنا سنگین خطرہ تصور کر رہا ہے ۔ اسی لیے چینی وزیر دفاع نے سنگاپور میں امریکی وزیر دفاع سے ملاقات پر واضح کردیا کہ تائیوان کی طرف سے اعلان آزادی چین کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوگا چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔خیال رہے کہ چین کے دوٹوک موقف کے بعد تائیوان کو ہلہ شیری دینے سے دیگر قوتوں کےباز آجانے کا امکان ہے۔

تازہ ترین