• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جمہوریت مخالف قوتوں نے ہمیشہ سیاسی شخصیات کو عوام میں بدنام کرنے کیلئے طرح طرح کے الزامات لگائے اور پاکستان کے ہر مسئلے میں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔

 حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے چند سال کے علاوہ کسی بھی سیاسی رہنما کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیا گیا اور ان کے سروں پر غیر سیاسی طاقتوں کی مداخلت کی تلوار لٹکتی رہی۔

جنابِ بھٹو کو بھی یہ موقع بہ امرِ مجبوری عطا کیا گیاکیونکہ 71میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد کوئی اور سیاسی یا غیر سیاسی قوّت ایسی نہ تھی جو باقی ماندہ پاکستان کو متحد رکھ سکتی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جس طرح ایک جمہوری رہنما قائد اعظم نے پاکستان بنایا۔

اسی طرح دوسرے جمہوری رہنما نے پاکستان کو نشاۃ ِثانیہ دی اور چندہی سال میں پاکستان کو دنیا ئے اسلام کا اہم ترین ملک بنا دیا۔ جو چند سال پہلے جمہوری عمل تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب جنابِ بھٹو کی سربراہی میں پاکستان میں تاریخی نوعیت کے فیصلے کئے گئے جن کی وجہ سے بعدمیں آنے والے پے در پے کئی بحرانوں کے باوجود پاکستان قائم و دائم ہے۔

ان میں سب سے بڑا فیصلہ آئین سازی اور اس کے بعد ایٹمی پروگرام کا ہے۔ عوام کو جمہوریت سے دور رکھنے کیلئے سب سے بڑا الزام کرپشن کا لگایا گیا، دوسرے نمبر پر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے اور موروثی سیاست کو فروغ دینا ہے۔

 بظاہر یہ دونوں الزام کافی سنجیدہ ہیں لیکن الزام لگانے والوں سے نہایت اد ب کے ساتھ عرض ہے کہ سب سے بڑی کرپشن تو ملکی آئین کو توڑ کر اپنی مرضی کی کٹھ پتلیاں بنانا اور انہیں بوگس انتخابات کے ذریعے عوام پر مسلّط کرنا ہے۔

 اس طرح دھاندلی کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندوں کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ انکی اسمبلی اپنی میعاد پوری کرے گی یا نہیں ؟ لہٰذا وہ آتے ہی کرپشن میں مصروف ہو جاتے ہیں تاکہ کروڑوں روپے جو انہوں نے انتخابات میں خرچ کئے ہیں وہ انہیں واپس مل جائیں ۔ دیگر عوامل کے علاوہ یہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی بھی کرپشن کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سیاسی پارٹیوں میں جمہوری عمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک میں بار بار جمہوری عمل کا رک جانا یا اس میں مداخلت ہے۔ اگر ملک میں تو اتر سے شفاف جمہوری عمل چلتا رہے تو پھر سیاسی جماعتیں بھی اپنی جماعتوں میں جمہوریت لانے پر مجبور ہو جائیں گی۔

جہاں تک موروثی سیاست کا سوال ہے تو یہ بھی اسی مرکزی نکتے سے جڑا ہوا ہے کہ جب ملک میں سیاسی عمل روک دیا جاتا ہے اور کسی سیاسی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دی جاتی ہیں تو اس وقت پارٹی کو بچانے کیلئے کوئی میدان میں نہیں نکلتااور مجبوراََ اس وقت خاندان میں سے کسی کو سامنے آنا پڑتا ہے اور وہ تمام مصائب جھیلتا ہے۔

جسکی ماضی میں مثالیں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں اور موجودہ دور میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

ویسے بھی زندگی کے ہر شعبے میں خاندان کے افراد کو صرف یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ انکی پہنچ اس شعبے میں آسان ہوتی ہے لیکن یہ کامیابی کی گارنٹی نہیں۔ کامیاب وہی ہوتا ہے جس میں غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کاروبار،فلم یا اسپورٹس جیسے شعبوں میں اپنے خاندان کی وساطت سے داخل ہونے والے تمام افراد کامیاب نہیں ہوتے۔ امریکہ میں کینیڈی اور بُش خاندان ہو یا کینیڈا میں ٹروڈو بھارت میں نہرو خاندان ہو یا پاکستا ن میں بھٹو ز کامیاب وہی ہوئے جن میں قائدانہ صلاحیتیں تھیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو سیاست میں نہیں آنا چاہتی تھیں لیکن حالات نے انہیں سیاست میں دھکیل دیا اور پھر وہ تاریخ کی چند بڑی شخصیات میں شامل ہو گئیں ۔ کیا نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ایک ناکام سیاستدان تھیں محض اس لیے کہ ان کے والد بھی سیاست میں تھے۔

 راہول گاندھی بھی اسی خاندان کا چشم و چراغ ہے لیکن وہ پنڈت نہرو اور اپنی دادی اندرا گاندھی جیسی مقبولیت حاصل نہیں کر سکا۔اس کے علاوہ ہمارے خطے میں سری لنکا کے سابق وزیرِ اعظم مسڑ نائیکے کی بیوہ بندرا نائیکے اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد بھی اپنے اپنے ملک کی کامیاب ترین وزرائے اعظم ہیں۔

 اس بحث کا لبّ ِ لباب یہ ہے کہ ہمیں سیاستدانوں پر طرح طرح کے الزام لگانے کی بجائے انہیں شفاف اور دیانتدار انہ انتخابات کے ذریعے منتخب کرنا چاہیے اور پھر کسی غیر سیاسی طاقت کے دبائو کے بغیر آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔

 اس کے بعد ہی ہم ان کا بے لاگ محاسبہ کرسکتے ہیں۔ ورنہ پاکستان میں نہ تو سیاسی استحکام آسکتا ہے اور نہ ہی معاشی استحکام کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین