پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش روز بروز گھمبیر ہوتے معاشی حالات کی وجہ سے اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکومت کے مابین سیاسی بیانیے کی جنگ معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں کے دعووں اور الزامات تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عوام کو زبانی دعووں اور الزامات کی بجائے حقائق پر مبنی معاشی جائزہ پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اقتصادی سروے رپورٹ 22-2021 کو ایک بنیادی دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے جس میں گزشتہ حکومت کی اختیار کی گئی معاشی پالیسیوں کے نتائج بیان کئے گئے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی، برآمدات، زراعت، خدمات اور صنعتی شعبے کےحوالے سے طے کئے گئے اہداف کے مقابلے میں ترقی کی شرح زیادہ رہی ہے۔
اقتصادی سروے کے حوالے سے گزشتہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ قرار دی جا سکتی ہے کہ گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح میں چھ فیصد ترقی ریکارڈ کی گئی ۔ یہ بات اس لحاظ سے اہم ہے کہ گزشتہ حکومت نے کورونا کی وباء اور عالمی کساد بازاری کے باعث جی ڈی پی کےطے شدہ ہدف سے زیادہ ترقی کا ریکارڈ قائم کیا ۔ اسی طرح رواں مالی سال کے دوران جولائی 2021 سے مئی 2022 تک کے عرصے میں برآمدات 28 ارب 84 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ اس سلسلے میں ہدف 26 ارب 83 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔ زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ بھی 3.5 فیصد کے ہدف کی نسبت 4.4 فیصد رہا جبکہ صنعتی شعبے کی پیداوار 6.6 فیصد کے ہدف کی نسبت 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ علاوہ ازیں خدمات کے شعبے کی بڑھوتری 4.7 فیصد ہدف کی نسبت 6.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ مجموعی سرمایہ کاری 16.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں 15.1 فیصد رہی۔ برآمدات میں 61.24 فیصد شیئر کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ یہ شعبہ صنعتی ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے اور صنعتی لیبر فورس کے تقریباً 40 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ رواں مالی سال میں اس شعبے کی برآمدات کا حجم 14.2 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 25.4 فیصد زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل کے شعبے کی استعداد بڑھانے کے لئے جولائی 2021ء سے مئی 2022ء تک کے عرصے میں 62 کروڑ 17 لاکھ ڈالر کی مشینری درآمد کی گئی جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 64.7 فیصد زیادہ ہے۔ ان اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے کورونا کی وباء، عالمی کساد بازاری اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے باوجود مثالی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔
موجودہ حکومت کی طرف سے گزشتہ حکومت کی ان کامیابیوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں معیشت کےحوالے سے سیاسی محاذ آرائی میں کمی لائی جا سکے۔ یہ امر اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف جب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے عہدے پر فائز تھے تو وہ خود میثاق معیشت کرنے کی تجویز پیش کر چکے ہیں اور اب بھی وہ اپنے مختلف بیانات میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ معاشی محاذ پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے معاشی ماہرین گزشتہ حکومت کی طرف سے حاصل کی گئی چھ فیصد ترقی کی اہمیت کو کم کر کے دکھانے کے لئے یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ جی ڈی پی کی شرح میں زیادہ ترقی نے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں اور اس کی وجہ سے ادائیگیوں میں عدم توازن کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ تاہم یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہےکہ 2018ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت میں جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ چھ فیصد رہا تھا تو اس وقت پاکستان کا جاری کھاتوں کا خسارہ 19 ارب ڈالر پر پہنچ گیا تھا جب کہ رواں مالی سال میں جب گروتھ چھ فیصد ہوئی ہے تو یہ خسارہ 14 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ اس خسارے کی بڑی وجہ بھی دنیا میں خودرنی اجناس اور تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔ اگر عالمی منڈی میں خوردنی اجناس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تو چھ فیصد کی شرح ترقی کے باوجود جاری کھاتوں کا خسارہ پانچ ارب ڈالر تک محدود رہنے کا امکان تھا۔موجودہ حکومت کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ترقی کی اس شرح کو برقرار رکھنا یا اس میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ تاہم موجودہ مخلوط حکومت کے معاشی ماہرین نے مستقبل میں اس حوالے سے ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے ابھی سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگلے مالی سال میں ترقی کی اس شرح کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران شدید سے شدید تر ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت نے شرح سود میں چار فیصد تک اضافہ کر دیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ اس کے علاوہ برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے بھی گزشتہ حکومت کی طرف سے دیئے گئے انر جی پیکیج کی واپسی کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں جس سے اپنی پیداواری استعداد بڑھانے کیلئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں موجودہ حکومت کی طرف سے گزشتہ حکومت پر نااہل اور نالائق ہونے کے الزامات پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)