• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت مثبت خبر ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے شرائط مکمل کر لی ہیں اور اب ٹیکنیکل مراحل پورے ہونے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جو ہری حوالے سے اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے، وہ بار بار ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیوں کر دیا جاتا ہے ؟ پاکستان فروری دو ہزار آٹھ میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا جب پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ معاملہ ورثے میں ملا۔ 2010ءمیں پاکستان اس سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر دوبارہ 2012 میں پاکستان کو اس میں شامل کر دیا گیا ۔ 2013میں جب مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی تو اس کوبھی اس کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ بھی وطن عزیز کو 2015 میں اس لسٹ سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد دوبارہ اس صورتحال سے محفوظ رہنے کے لئے نواز شریف نے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا مشورہ بلکہ ارادہ ظاہر کیا مگر جواب میں ان کو سو سے زائد پیشیاں ، ان کو اور ان کے خاندان کو گرفتاریاں ، سزائیں اور جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا ۔ جون 2018 میں ، نگراں حکومت کے دور میں وطن عزیز دوبارہ اس لسٹ میں شامل کر دیا گیا ۔ اس بار یہ بھی ہوا کہ اگلی حکومت عمران خان کی قائم ہوئی اور ساڑھے تین سال سے زائد قائم بھی رہی مگر پاکستان گرے لسٹ میں برقرار رہا یہ پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے کا سب سے طویل دورانیہ رہا کیوں کہ ماضی کی حکومتوں میں یہ دورانیہ اس سے کم رہا ۔ اس میں یہ بھی قابل غور بات ہے کہ مسلم لیگ ن کے کسی دور حکومت میں پاکستان گرے لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا اور اب دوسری بار گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل بھی مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم حکومت کے دور میں شروع ہوا ہے ۔ اس لسٹ سے نکلنے کے عمل میں جہاں پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط کو مکمل کرنے میں انتھک کردارہے وہیں ایف اے ٹی ایف میں بھی کچھ حالات تبدیل ہوئے۔ اس بار یہ اجلاس جرمنی میں منعقد ہوا ،جرمنی اس حوالے سے نرم گوشہ رکھتا ہے ۔ جرمن وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ اسلام آباد میں بھی انھوں نے اس حوالے سے بہت مثبت اشارے دئیے تھے لہٰذا امید تھی کہ جرمنی پاکستان کی مدد کرے گا اور اس نے مدد کی بھی جبکہ اٹلی ایف اے ٹی ایف کا شریک چیئرمین بن چکا ہے ۔ اٹلی اس حوالے سے کتنا متحرک تھا اس کا ذکر میں نے اپنے 16 مئی کے کالم میں ان الفاظ میں کیا تھا’’ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس فورم کا شریک چیئرمین اٹلی بن چکا ہے جہاں یورپ کی حد تک سب سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں اور پاکستان کی بین الاقوامی مفادات میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے،اطالوی وزیراعظم نے جو خط وزیراعظم شہباز شریف کو تحریر کیا ہے اس میں بھی ان مشترکہ مفادات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ان کا اشارہ پاک اٹلی کافی کلب کی جانب ہے جس کے مقاصد میں شامل ہےکہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد کو بڑھنے نہ دیا جائے۔ اس مشترکہ سوچ کے سبب اٹلی ایف اے ٹی ایف کے معاملات میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے اس سلسلے میں اٹلی نے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کو جواب نہیں دیا گیا‘‘ بہر حال اس کے بعد ایوان وزیراعظم نے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا اور پھر اٹلی نے اپنا بھرپور کردار بھی ادا کیا۔ امریکہ کا رویہ بھی بہت بہتر رہا ۔ میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ امریکی دفتر خارجہ میں پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کو بہت مثبت اور تعمیری طور پر لیا گیا ہے ۔ وہ افغانستان سے ہٹ کر پاکستان سے شراکت داری کو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ اس لئے ہی نئے امریکی سفیر اپنی آمد کے ساتھ ہی امریکہ کو پاکستانی ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں، جو گزشتہ سال صرف پارچہ جات کی مد میں 4.4 ارب ڈالر تھیں اور جن کے بڑھنے کی بہت گنجائش موجود ہے ۔ ویسے بھی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کے جو سفارتکار وطن عزیز میں تعینات ہیں، وہ پاکستان کے حوالے سے بہت مثبت خیالات اور معلومات رکھتے ہیں جس کے بہت مثبت اثرات تعلقات پر مرتب ہو رہے ہیں ۔ پھر بھارت کی دنیا میں حرکتیں بھی اب تشویش کی نظر سے دیکھی جا رہی ہیں اور محسوس کیا جا رہا ہے کہ انڈیا اپنی حد سے باہر نکل رہا ہے، اپنے شہریوں ،بالخصوص مسلمانوں سے جو سلوک انڈیا کر رہا ہے اس پر بھی عالمی رائے عامہ میں تشویش اور ناپسندیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ ان تمام عوامل نے مل کر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں کامیابی دلائی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ ہم بار بار اس میں دوبارہ شامل کیوں کر دئیے جاتے ہیں ؟ تو اس کو سوائےعاقبت نا اندیشی کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر پاکستان میں دل سے تسلیم کر لیا جائے کہ سیاستدان ،فوج ،عدلیہ اور تاجر طبقہ سب یکساں طور پر محب وطن ہیں اور سب کو اپنی اپنی طے شدہ حدود سے باہر نہیں نکلنا چاہئے تو اس نوعیت کے حالات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔جس کو آئین نے جو فرائض سونپے ہیں وہ وہی ادا کرے ورنہ نقصان نسلوں تک ہوتا ہے مثال کے طور پر ایوب خان کے دور میں پاکستانی فوج کی ازسرنو تشکیل پر ایک کتاب میجر جنرل فضل مقیم خان نے ’’دی اسٹوری آف دی پاکستان آرمی‘‘ تحریر کی تھی۔ انہوں نے کشمیر کے تنازعے کے وقت کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بیان کیا کہ قائد اعظم نے 27 اکتوبر 1947 کو اس اطلاع کے بعد کہ ہندوستانی فوج کشمیر میں پہنچ گئی ہے پاکستانی فوج کےکمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا مگر اس نے ٹال مٹول سے کام لیا اور اگلے روز دونوں ممالک کی فوجوں کی تقسیم کے ادارے ڈیفنس کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلک کو دہلی سے لاہور بلا بھیجا اور دونوں نے قائد اعظم سے ملاقات کی۔ میجر جنرل فضل مقیم خان نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دونوں نے قائد اعظم کو اشارہ کیا تھا کہ جنگ کی صورت میں برطانوی افسر جو اس وقت فوج کے تمام اعلیٰ عہدوں پر مامور تھے ہٹا لئے جائیں گے ۔ خیال رہے کہ اس وقت ہندوستان کے کمانڈر انچیف سر راب لاک ہارٹ تھے جب کہ ہندوستان کی طرف سے کشمیر آپریشن کی قیادت میجر جنرل سر ڈڈلے رسل کر رہے تھے ۔ اگر اس وقت قائداعظم کے حکم کو مان لیا جاتا تو آج برصغیر کا امن ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں نہ ہوتا ۔ یہی سبق آج کے افراد کے لئےبھی ہے کہ اگر آئینی حکم مان لیا جائے تو پھر دوبارہ گرے لسٹ کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا ورنہ بار بار یہی چکر۔

تازہ ترین