کڑی ہے دھوپ بے سایہ شجر ہے
ہمیں در پیش یہ کیسا سفر ہے
بہت لمبی تھی فہرستِ رفیقاں
نہ جانے کون کیساہے، کِدھر ہے
دُعا بھی ہے خلاؤں میں معلّق
دوا بھی لگ رہا ہے بے اثر ہے
تم اِک جملے میں دل کی بات کہہ دو
صدی اکیسویں بھی مختصر ہے
مرے بچّے ہیں، بیوی اور مَیں ہوں
ہمارا ایک بس چھوٹا سا گھر ہے (حامد علی سیّد)