• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں بھی اُدھر کھڑے کھڑے ایک ہی سانس میں آدھا گلاس، جو بہت کڑوا ہوتا اور سینے میں آگ لگا دیتا، آنکھیں بند کرکے پی جاتا، ساتھ ہی نمک پلیٹ میں رکھا ہوتا تھا، اُس کو انگلی لگا کر منہ کا ذائقہ بدل لیا کرتا تھا۔ اُسے پینے کے بعد مجھے اچھا خاصا نشہ ہوجاتا تھا۔ گھر میں اگر کوئی چٹ پٹا سالن پکا ہوتا تھا تو مَیں اس کا صفایا کرجاتا۔ یاد رہے، شراب پینے کے بعد بھوک بڑھ جاتی ہے۔‘‘ اُن کی بات جاری تھی۔ ’’اِس کے علاوہ مَیں محلے کی مسجد میں رات کو سپارہ پڑھنے بھی جایا کرتا تھا۔ سپارہ پڑھنے کے علاوہ چندگھروں سے قاری صاحب کے لیے کھانا بھی لینے جاتا تھا۔ 

جمعرات والے دن تمام لڑکے قاری صاحب کے لیے گردونواح کے گھر وں سے انواع و اقسام کے کھانے اکٹھے کرکے لاتے۔ میرے سامنے کوئی شراب پینے والا پکڑا جاتا تو اس کو سول اسپتال لاکر نہ صرف اس کی چھترول کی جاتی بلکہ قے کروا کر قے کا سیمپل لیبارٹری میں بھیج کرمثبت نتیجہ آتا تو اس کی باقاعدہ ایف آئی آربھی کٹتی تھی۔ کئی دفعہ مجھے کہاگیا کہ آپ پرمٹ بنوالیں۔ وہ خرابی ٔصحت کی بِنا پر بنایا جاتا تھا اور مسلم بھی بنوا سکتے تھے۔ 

اس پر گیارہ روپے لاگت آتی تھی، لیکن یہ ایک طویل عمل تھا۔ لاہور میں آوارہ گردی کرکے مجھے مزہ آتا تھا۔ آزادی اور خود مختاری کا مزہ ہی کچھ اورہے۔ جب لاہور کی زندگی سے اکتاجاتا تو گھر آجاتا۔ گھرمیں چند دن رہنے سے دل گھبرا جاتا توکسی دوسرے شہر چلا جاتا تھا۔‘‘’’آپ اپنی گفت گو میں اکثر فیصل آبادکا بھی تذکرہ کرتے ہیں اورباتوں باتوں میں شراب سپلائی کے ٹھیکے کابھی تذکرہ لے آتے ہیں۔‘‘ مَیں نے اُنھیں یاد دلایا تو وہ فخریہ سینہ تان کر شوخی سے مُسکرائے اور اس طرح رواں ہوگئے، جس طرح کسی یورپین بار میں اُلٹی لگی بوتل سے نلکی کھولنے پر آتشیں سیال غٹاغٹ بہتا چلا آتا ہے۔

’’مَیں ایک مرتبہ لائل پور چلا گیا۔ وہاں بھی زندگی کا تجربہ مختلف رہا۔ وہاں گھنٹا گھر پر ایک ہوٹل پربرتن دھونے کی نوکری کرلی۔ ابھی ایک دو دن ہی کام کیا ہوگا کہ مجھے جھنگ بازار میں میڈیکل اسٹور پرنوکری مل گئی۔ اتفاق ایسا ہوا، وہ میڈیکل اسٹور ایک ڈاکٹر نے اپنے بچّے کو کھول کر دیا تھا۔ وہ بچّہ بھی میری عُمر کا تھا اور لاڈ پیار سے بگڑا ہوا تھا۔ اس کی دوستیاں بھی اُسی قماش کے دوستوں کے ساتھ تھیں، اس لیے وہ دکان پر کم ہی توجّہ دیتا۔ میری بھی ان دوستوں کے ساتھ اچھی دوستی ہوگئی۔ وہاں بڑی مسجد کے گیٹ کے بازو میں ایک ہوٹل تھا، جو پوری رات کُھلا رہتا تھا۔ 

ہوٹل پر پوری رات اونچی آواز میں گانے لگے رہتے اور چائے پینے والے کاغذ پر لکھ کر گانے کی فرمائش کیا کرتے۔ ہوٹل والے کے پاس وافرتعداد میں کالے رنگ کے ریکارڈ ہوتے تھے۔ ان سے ریکارڈ چن کروہ فرمائشیں پوری کیاکرتا۔ اس طرح لائل پور میں کچھ عرصہ گزارا۔ مَیں میڈیکل اسٹور پر کام کرتا تھا، اس کے سامنے ایک اور میڈیکل اسٹور تھا۔ اس کے مالک کا نام احسان تھا۔ وہ میری اہلیت اور قابلیت بھانپ گیا تھا اور کئی دنوں تک میرے پیچھے پڑا رہا کہ میں پیرمحل، اُس کے والد کے اسٹور پر چلا جاؤں۔ 

وہاں مجھے رہنے کے علاوہ تین وقت کا کھانا بھی ملے گا۔ مَیں بھی بے آرامی کی زندگی سے تنگ آگیاتھا۔ ہامی بھرلی اور پیر محل چلا گیا، جو ضلع لائل پور کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اب تو وہ اچھا خاصا شہر بن گیا ہے۔ مجھے دکان تلاش کرنے میں زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ غلّہ منڈی کے پاس بازار میں دکان تھی۔ دکان پنسار اسٹور تھی۔ یہ کوئی میڈیکل اسٹور تونہ تھا۔ مَیں سارا دن جڑی بوٹیاں تول کر دیتا رہتا۔ اُس وقت تو مجھے جڑی بوٹیوں کی زیادہ جان کاری نہ ہوسکی۔ میرے مالک نے مجھے ایک اور ڈیوٹی سونپ دی۔ اُس نے مجھے ایک درانتی اور بڑی سی چادر دے دی اور کہاکہ مَیں فلاں کھیت سے بھینس کے لیے چارا کاٹ کر لاؤں۔ 

مَیں نے چادر بغل میں دباکر کھیت سے چارا کاٹا۔ جتنا اٹھا سکتا تھا، اُس کی ایک گٹھڑی سی بنائی اور ایک راہ چلتے آدمی کوکہا کہ وہ گٹھڑی اٹھا کر میرے سر پر رکھ دے۔ مَیں وہ چارے کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر قریباً نصف میل پیدل چل کر لایا اور کاٹ کر بھینس کو چارا ڈالا۔ اس طرح چار پانچ دن کام کیا۔ مگرمیرا اس دیہاتی ماحول میں دل نہ لگا اور مَیں واپس لائل پور آگیا۔ مَیں نے احسان کو بتادیا۔ اس ماحول میں اور اس طرح کی ڈیوٹی کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔‘‘ ’’تب اِردگرد، شہر، قصبات کا ماحول کیسا تھا؟‘‘ 

مَیں نے پوچھا۔ ’’تب مرفی اور فلپس کے ریڈیو ہوا کرتے تھے اور آواز میں شوں شوں، شاں شاں زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس لیے مَیں کان لگا کر تانوں اور گھمک کو بڑے غور سے سنتا تھا، جو مجھے اچھی لگتی تھیں۔ 1965ء کی جنگ ہوئی تو اُس وقت سونی نے پاکستان میں ون بینڈ کے ٹرانزیسڑ ریڈیو متعارف کروا ئے۔ اُس وقت اس ریڈیو کی قیمت ایک سو دس روپے تھی اور جنگ کے دوران لوگوں نے خبروں کے لیے یہ ریڈیوخوب خریدے تھے۔ قریباً ایک سال لائل پور میں رہا۔ اس وقت تک میں بچپن کی حدود پھلانگ کر لڑکپن میں داخل ہوچکا تھا۔ 

بعدازاں، واپس اپنے آبائی شہر آگیا۔ وہاں میرا تعارف اپنے ہی شہر کے ایک آدمی سے ہوا، جو ادویہ کے کاروبار سے منسلک تھا۔ اُس نے میری خدمات سے استفادے کے لیے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا۔ میرا کام یہ تھاکہ گجرات کے گردونواح کے شہروں سے آرڈر لے کر آتا اور خود ہی مال فراہم کرنے جاتا۔ میرا دائرہ کار آزاد کشمیر، کوٹلی اورنکیال تک تھا۔ منگلا ڈیم کے اس پار ایک نیا شہر آباد ہو رہا تھا۔ وہاں کمرشل بینک کھیتوں میں بنے ہوئے تھے اور ابھی سڑک بھی نہیں بنی تھی۔ اس شہر کا نام ڈھڈیال تھا۔ اس شہر تک جانے کے لیے دو راستوں سے رسائی تھی۔ 

ایک تو میرپور سے لانچ پربیٹھ کر ڈھڈیال جاناپڑتا تھا، دوسرا راستہ چک سواری سے ہوتا ہوا پلاک جاتا تھا اور پلاک سے نیچے اترکر ایک نالا چھوٹی کشتی سے پار کرنا پڑتا تھا۔ چوں کہ میرے پاس ادویہ کے ڈبے ہوتے تھے، سو مجھے وہاں سے گدھا گاڑی پر مال لاد کر ڈھڈیال میں تین چار دکان داروں کو فراہم کرنا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ایک دکان دار نے مجھ سے کہا کہ کیا مَیں وہسکی، کپی یا ٹنکچر سپلائی کرسکتا ہوں، مَیں نے ہاں کردی۔ 

میری اُس سے ڈیل پندرہ آنے میں ہوئی۔ مَیں نے لاہور نسبت روڈ سے رات دن لیبل لگی خالی بوتلیں لیں، جب کہ شاہ عالمی سے مجھے ان کے المونیم کے ڈھکن مل گئے اور ایک جگہ سے مجھے ایتھائل الکحل بھی مل گئی۔ کارمل کلر ڈال کر اس کو وہسکی کا رنگ دیا اور ڈھکن لگا کرقریباً پچاس بوتلیں سپلائی کردیں۔ اس نے مجھے فوراً آرڈر دے دیا۔ پر، یہ سلسلہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا۔‘‘

نوجوان اسحاق نُور کو کسی پَل چَین نہ آتا تھا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ اب تک چند چھوٹی موٹی مزدوریوں اور دہاڑیوں کے علاوہ اُس کا نوجوانی کا ابتدائی حصّہ طب سے منسلک کام دھندوں میں گزرا تھا اور تجربہ ہونے کی بنا پر اُسے ایسے کسی اسٹور پریا کاروبار میں باآسانی ملازمت بھی مل جاتی تھی۔ کچھ لوگ پیدایشی داستان گو ہوتے ہیں۔ ایک بات جو کوئی عام آدمی سنائے اور لوگ اُسے خاص توجُہ نہ دیں، جب وہی سادہ، عام سی بات ایک داستان گو سناتا ہے، تو اس میں ایسی چاشنی اور کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ بھرا مجمع دم بخود اُسے سنتا ہے۔

اسحاق نُور بھی اُسی قبیلے کے ایک فرد تھے۔ بات شروع کرتے تو بات سے بات نکلتی چلی آتی۔ کتابوں، تاریخ، انوکھی یادوں اور شخصیات، متنوّع دیسی پیشوں، مردوعورت کی فطرت، ان جانے لوگوں کے راز اور ہیرامنڈی کی باتیں نمک چھڑکے سوڈے کی بوتل سے جھاگ اڑاتی نکلتی چلی آتیں۔ رنگ و موسیقی سے شغف نوجوان اسحاق نور کی گُھٹی میں پڑاتھا۔ ایک مرتبہ رات گئے لاہور میں کسی سڑک پرمٹرگشت کررہا تھا۔ ایک بڑے بنگلے سے آتی موسیقی کی تانوں نے پیر جکڑلیے۔ چُھپ کر بنگلے میں داخل ہوگیا اور ایک جھاڑی کی اوٹ سے موسیقی کے جیّد اساتذہ کو سُنا۔ 

عالی شان بنگلے کا وسیع و عریض لان مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر میں محافظوں نے اُسے وہاں چُھپا دیکھ لیا اور دھکیل کر کوٹھی سے باہر لے گئے اور باہر لے جاکر خوب مرمت کی۔ ’’موسیقی جیسی بے مول شے کے لیے تویہ ایک چھوٹی سی قربانی تھی۔ مَیں تو آج اس بڑھاپے میں اِس کی خاطر بڑی قربانیاں بھی دینے کو تیار ہوں۔ میری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا یہ ہے کہ اگرچہ میں گجرات سے تعلق رکھتا ہوں، اس کے باوجود بھی روشن آرا بیگم کا دیدار نہ کرسکا۔ مَیں اُنھیں اپنی روحانی ماں کا درجہ دیتا ہوں۔ اُن کی وفات کے بعد میں نے دیونا منڈی میں اُن کی قبر پر کئی مرتبہ حاضری دی ہے۔‘‘ 

یہ بتاتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ مَیں نے عموماً موسیقی کے اساتذہ میں ایک نرمی، ملائمت اور شائستگی دیکھی ہے، جو موسیقی کے عشّاق میں بھی سرایت کرجاتی ہے۔ جیسے چشمے کا پانی اس کے پتھروں کو ملائم کرکے چکنا کردیتا ہے یا یاتریوں کے قدم درگاہ کے صحن کے پتھروں کو ملائمت عطا کردیتے ہیں، موسیقی کی مسلسل پڑتی پھوار بھی روح کو نرمی عطاکرتی ہے۔ ایسے کم ہی لوگ بلند آہنگ کا گستاخانہ لہجہ اختیار کرتے پائے گئے ہیں۔ اسحاق نُور کی ناراضی میں بھی ایک شائستگی اورلب و لہجے میں نرمی ہوتی تھی۔ 

ہیرا منڈی میں چند برسوں کا قیام بھی ان کی شخصیت میں کوئی لچرپن، اوچھا پن اور گراوٹ لے کر نہ آیا، باوجود اس کے کہ وہاں وہ باقاعدہ طور پر گاہکوں کو قائل کرکے کوٹھوں پربھی لاتے رہے اور اس دشنام طلب کام کا معاوضہ بھی وصول کرتے رہے۔ ویسے تو گاہکوں کے لیے نایکاؤں سے زیادہ میٹھی اور نرم لحن خواتین بھی شاید ہی کوئی اورہوتی ہوں گی۔ وہ شائستگی کی چادر تب تک اوڑھے رکھتی ہیں، جب تک معاملہ ان کے حسب ِخواہش اور حسب ِتوقع چلتا رہے۔ اِدھر معاملہ خلافِ مزاج ہوا، اُدھر انھوں نے چادر اُتاردی۔

یہ موسیقی کا پیدایشی شوق ہی تھا، جو نوجوان کن رس اسحاق نُور کو ہیرامنڈی تک لے گیا۔ ملازمتیں بدلنے کے عادی، زندگی کا ہررنگ دیکھنے کے رسیا نوجوان، اسحاق نُور کو ہیرامنڈی میں بیرے کے طور پرگلوب ہوٹل میں ملازمت مل گئی۔ ہیرامنڈی ابھی جوبن پرتھی اور وہاں کی دنیا باہر کے کون ومکاں سے ہٹ کر ایک منفرد جہان تھی۔ وہاں چھڑی تھامے ننگے پیروں والا ایک فقیر گشت کرتا تھا۔ شنید تھا کہ وہ روحانی قوتوں کا حامل تھا۔ زیادہ تر خاموش رہتا، کسی کو برُا بھلا کہتا تھا تو سمجھ لیا جاتا تھا کہ اس کے غصّے اور دشنام کا نشانہ بننے والے کی قسمت سنور جائے گی۔ 

لوگ فقیر کو جان بوجھ کر غصّہ دلانے کے لیے چھیڑتے تھے کہ وہ اُنھیں گالیاں دے اور ان کی قسمت بن جائے۔ مَن چلے اسحاق کو گلوب ہوٹل کی ملازمت بھاگئی۔ اس سے پہلے وہ ایسی آزاد اور بےپروا زندگی گزارتا رہا تھا کہ لکشمی چوک پر فلم دیکھ کر واپسی پر رات گئے دو بجے نہرمیں چھلانگ لگا کر نہاتا اور کسی چوراہے پر سو جاتا۔ وہ ہوٹل میں ٹھنڈی بوتلیں گاہکوں کے سامنے رکھتا، کوٹھے پر آئے تماش بینوں کے لیے گلاب و یاسمین کے پھولوں کے ہار لے جاتا اور ویل دینے کے لیے ان کے بڑے نوٹوں کے چھٹے کروانے نکل جاتا اور واپسی پر اُنھیں چینج لادیتا، جسے وہ کسی رقّاصہ پر وار دیتے۔ اُسے بھی ٹِپ میں چند روپے مل جاتے۔

تماش بینوں میں سب سے کُھلے دل اور ڈھیلی جیب کے مالک اسمگلر ہوتے تھے، جو نارووال اور قصور کے بارڈر سے غیرقانونی اشیا بھارت سے اسمگل کرکے پاکستان لاتے اور اِدھر کا مال اُدھر پہنچاتے تھے۔ اُنھیں ’’بیکٹرا‘‘ کہتے تھے۔ حیران کُن طور پر طوائفیں عام گھریلو عورتوں سے زیادہ ضعیف العقیدہ اور وہمی ہوتیں۔ غالباً اس کی وجہ ایک نامعلوم اورغیر محفوظ مستقبل تھا۔جوانی کےاواخر تک تووہ کچھ کماکھا لیتی تھیں، اس کے بعد کی زندگی مسلسل امتحان تھی۔ 

ایک عمومی تاثریہ ہے کہ تمام جوان طوائفیں ادھیڑعمری اور بڑھاپے میں نایکائیں بن جاتی ہیں، درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس وافر تعداد میں ابھرتی ہوئی طوائفوں کی موجودی ضروری ہوتی اور یہ تبھی ممکن تھا، جب ہیرامنڈی ہر برس کئی گُنا پھیلتی۔ یعنی دس کام چھوڑتی ادھیڑ طوائفوں کو سو نوجوان لڑکیاں میسّر ہوتیں۔ ان دس میں سے ایک نایکا بن جاتی اور باقی حسرت و ذلت کا ایندھن۔ کچھ خوش نصیب ہوتیں تو ان کی اولاد ان کی دیکھ بھال کرتی۔ ویسے ان میں سے بیش تر اتنا پس انداز بھی کرلیتی تھیں کہ چند برس اچھے گزر جاتے۔ 

عروج کے زمانے میں ان کی کمائی پر نایکائوں، موسیقاروں، دلالوں، گھر والوں، خدمت گزاروں کا بوجھ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ باقاعدہ نذرنیاز، صدقہ خیرات بھی کرتی تھیں۔ ادھیڑ عُمری تک پہنچتے پہنچتے اُنھیں کئی بیماریاں چاٹنا شروع کرچکی ہوتیں، سو خوراک، کپڑے لتّے کے علاوہ ان پربیماریوں کے علاج معالجے کے اضافی اخراجات کاغذی شہتیرپر آہنی بوجھ کی طرح ہوتے۔ یعنی باہر سے دمکتی نظر آتی زندگی، ساغر صدیقی کی اصطلاح میں جبرِ مسلسل کے سوا کچھ نہ تھی۔ یہ اللہ کی قابلِ رحم مخلوق تھی، لہٰذا طوائفیں جلد ہی پیروں فقیروں، جعلی عاملوں سے مرعوب ومسحور ہوجاتی تھیں، ان کے ہاں دیگیں دینے اور درگاہوں پرجانے کی روایت عام تھی۔ 

بادشاہی مسجد کے قریب ایک مزار تھا۔ ہیرامنڈی کی بیش تر طوائفیں اکثر وہاں حاضری دینے جاتیں۔ محرم، رمضان اور دیگر مقدس مواقع پر ان کے ہاں خاص احترام و اہتمام ہوتا تھا۔ اس سب کے باوجود ان کے اپنے محلوں میں ان سے بےزاری اورناپسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ دور دراز قصبات ودیہات سے روزگار کی تلاش میں اِدھر آٹکنے والے بھی ان کی جانب پیٹھ کیے رہتے تھے۔ 

جلد اسحاق ایک نایکا کے کوٹھے پر ملازم ہوگیا۔ وہ روپے بھنوا کر لاتا، ٹھنڈی بوتلوں، پھولوں کا اہتمام کرتا، موسیقاروں کاسازوسامان اُٹھاتا، پان لگواکر لاتا، گاہکوں پر نظر رکھتا، دن میں سودا سلف لاتا اور طوائفوں کے بیچ ایک گھر کا فرد بن کر ان کے راز ونیاز، چپقلشوں، بدگوئیوں اور خوشیوں میں شریک ہوتا۔ ایک مرتبہ اُسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اُس وقت نایکا مجرے کے لیے کوٹھا سجا رہی تھی۔ اسحاق نے بہانہ گھڑا کہ اخبار والے کے 150روپے دینے ہیں۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید