• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیاری تعلیم کے بغیر مُلک و قوم کی ترقی ممکن نہیں

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

14 اگست 1954ء کو بلوچستان کے علاقے کردگاپ میں پیدا ہونے والے مصنّف، شاعر، ادیب ،محقّق اورگوادر یونی وَرسٹی کے شیخ الجامعہ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزّاق صابر کا شمار مُلک کے انتہائی تجربہ کار ماہرِ تعلیم اور اعلیٰ پائے کے شیخ الجامعات میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے ماتحت ملازمین، اساتذہ اور طلبہ میں یک ساں مقبول، ہر دل عزیز اور انتہائی محترم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شعبۂ تعلیم میں مثالی خدمات کے نتیجے میں انہیں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا جا چُکا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرزّاق صابر نوجوانوں اور بچّوں کوجدید تعلیم سے دُور رکھنے کے سخت مخالف ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ نسلِ نو کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور وقت کی اہمیت سکھانی بہت ضروری ہے، تاکہ وہ دَورِ حاضر کی ایجادات کا مثبت استعمال کرسکیں۔ ڈاکٹر عبدالرزّاق صابر اس مقام تک کیسے پہنچے، زندگی میں کچھ بننے، کچھ حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے گزشتہ دنوں ان سےایک نشست رکھی، جس میں ہونے والی گفتگو کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنےخاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں۔

ج: ویسے تو ہمارا خاندانی پیشہ تجارت ہے، لیکن میرے دادا، میر جمعہ خان چوں کہ پہلی جنگِ عظیم میں برطانوی فوج میں شامل تھے، تو گھر کےماحول میں خاصا نظم و ضبط پایا جاتا تھا۔ بعداز ریٹائرمنٹ انہوں نے تجارت کا آغاز کیا اور جلد ہی ان کا شمار علاقے کی بڑی کاروباری شخصیات میں ہونے لگا۔ پھر میرے والد نے داداکا کاروبار سنبھالا، لیکن وہ خود زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے تھے، تو اُن کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔

مَیں نے بنیادی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول ،مڈل کردگاپ مڈل اسکول سےاور میٹرک پائلٹ سیکنڈری اسکول سے کیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ساتویں جماعت میں تھا، تو اُستاد جی جمیل گل نے مجھے ’’صابر‘‘ تخلص رکھنے کا مشورہ دیا۔ 

میٹرک کا نتیجہ آنے سے قبل کچھ دن سبزی مارکیٹ میں محنت مزدوری اور سخت مشقّت کی، جس نے مجھے آگے چل کر زندگی کی ہر مشکل کا دلیری سے سامنا کرنا سکھایا۔ پھر ایک سرکاری دفتر میں کلرکی بھی کی۔ بعد ازاں، محکمۂ تعلیم میں ملازمت مل گئی اور اسی ملازمت کے دوران جب1977 ء میں کوئٹہ آیا، تو نام وَر شاعر عارف ضیاء اور ادبی حلقوں سے شناسائی ہوئی۔

س: آپ نے بیرونِ مُلک بھی پاکستان کی نمایندگی کی، اس حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: اُردن میں بطور پاکستانی اسکالر اور تعلیمی و ثقافتی اتاشی (جس کا سفارتی منصب وفاقی وزیر کا ہوتا ہے) فرائض سرانجام دیئے، جہاں سفارتی آداب سمیت سفارت کاروں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اُردن میں پاکستانیوں کی بہت قدر کی جاتی ہے، جس کی بنیادی وجہ اُردن، اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان کا اُردن کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ یوں تو مجھے تمام دولتہ عربیہ گھومنے کا موقع ملا، مگر اُردن، شام، لبنان اور فلسطین کے لوگوں کو باقی عربوں سے بہت مختلف اور نرم مزاج پایا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ وہ بدّو نہیں، رومن نسل کے عرب ہیں۔

س: آپ براہوی زبان سے متعلق کئی بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرتے رہتے ہیں، تو اس ضمن میں اپنا کوئی مشاہدہ شیئر کرنا چاہیں گے؟

ج: جی ہاں، 1995ء میں ایک دراوڑی کانفرنس میں شرکت کے لیے میرا جنوبی ہند کے صوبے کیرالا اور تامل ناڈو جانا ہوا، تو اس موقعے پر مجھے دراوڑی زبان بولنے والوں سے ملنے اور ان کی تہذیب و ثقافت کے قریب سے مشاہدے کا موقع ملا، تو اندازہ ہوا کہ براہوی اور دراوڑی زبان کی کئی قدریں مشترکہ ہیں، جن کی مَیں نے اپنے سفر نامے میں بھی نشان دہی کی، مگر بہرحال، براہوی زبان بولنے والوں کو دراوڑ نسل ثابت کرنے کے لیے ابھی بہت تحقیق کی ضرورت ہے۔

نمایندۂ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس)
نمایندۂ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس) 

س: تربت یونی وَرسٹی کے قیام اور بحیثیت وائس چانسلر تعیناتی کے حوالے سے کچھ بتائیں۔

ج: 2013 ء میں ’’یونی وَرسٹی آف تربت‘‘ کے قیام کے فوری بعد مجھے اس کے پہلے اور بانی وائس چانسلر بننے کا موقع ملا ، جہاں سے مَیں 2021ء میں سبک دوش ہوا۔ اُس وقت کے گورنر بلوچستان ،نواب ذوالفقار علی مگسی نے جس بنیاد پر مجھے دیگر امیدواروں پر ترجیح دی تھی، وہ میرا نیا ادارہ بنانے کا تجربہ تھا۔ 

دراصل مجھے یونی وَرسٹی آف بلوچستان میں شعبۂ لسانیات، بلوچستان اسٹڈی سینٹر اور اُردن میں پاکستان چیئر کی ترویج ، نیزجامعہ اُردنیہ میں ’’پاکستان کارنر‘‘ کے قیام کا تجربہ تھا۔ لیکن جس مشکل دَور اور حالات میں، مَیں نے تربت یونی وَرسٹی کی بنیاد رکھی، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اچھی ٹیم ساتھ ہو اور نیک نیتی سے دن رات محنت کی جائے تو پھل ضرور ملتا ہے اوردشواریاں بھی خودبخود دُور ہوتی چلی جاتی ہیں۔

تربت یونی وَرسٹی کا شمار ان چند یونیورسٹیز میں ہوتا ہے، جن کا تعمیراتی کام چار سے سات سال کے قلیل عرصے میں مکمل ہوا۔ اس ضمن میں مجھے تربت کی تمام سیاسی و سماجی شخصیات، بالخصوص سابق وزیر ِاعلیٰ بلوچستان، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اب الحمدُللہ! تربت یونی وَرسٹی ڈاکٹر جان کی سربراہی میں ملکی سطح پر اپنی ایک پہچان رکھتی ہے، جس میں قریباً پانچ ہزار طلبہ، پندرہ کے قریب مضامین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

یہ ہماری شبانہ روز محنت اور دُور اندیشی ہی کا ثمر ہے کہ دیگر ممالک سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے طلبہ یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہی نہیں، مربوط تعلیمی پالیسی اور بروقت انقلابی اقدامات ہی کی بدولت آٹھ سال کے مختصر عرصے میں نہ صرف تربت، بلکہ مکران ڈویژن میں بھی تین یونی وَرسٹیز کا قیام عمل میں آیا اور مجھے اُمیدِ واثق ہے کہ آئندہ پانچ سے دس برسوں میں یہ خطّہ نہ صرف مُلکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پہچانا جائے گا۔ 

تعلیم کے شعبے میں میری خدمات کے اعتراف میں سابق گورنر بلوچستان، سیّد ظہور آغا نے مجھے گوادر یونی وَرسٹی کے قیام کی ذمّے داری سونپی ہے، جس پر گزشتہ چھے ماہ سے کام جاری ہے۔ اور اُمیدِ واثق ہے کہ اِن شاء اللہ اگلے مالی سال سے وہاں تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر شروع ہوجائیں گی۔ ہم وفاق اور صوبے کی سرپرستی میں گوادر کے سیاسی و سماجی حلقوں کی مدد سے ایک اور شان دار تعلیمی ادارہ بنانے میں سُرخ رُو ہوں گے، جس میں نہ صرف پاکستانی، بلکہ غیر ملکی طلبہ بھی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ 

اسی طرح پنج گور کی مکران یونی وَرسٹی بھی ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے، جس کے قیام کا نہ صرف مَیں نے خواب دیکھا، بلکہ نامساعد حالات میں اس کےتعمیراتی کام کا آغاز بھی کروایا۔ نیز، مختصر مدّت میں مکران میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے جو کچھ کرسکتا تھا، وہ سب کیا اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ اس حوالے سے مَیں اہلیانِ مکران کے تمام مکاتبِ فکر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری ان خدمات کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کرکے نہ صرف نوجوان نسل کی علمی پیاس بجھائی بلکہ بھرپور انداز میں تعلیم دوستی کا بھی ثبوت دیا ۔

س: آپ کے خیال میں مکران میں شرحِ تعلیم میں اضافے کے کیا محرّکات ہیں؟

ج: یہاں کے طلبہ کی جو ایک اہم بات مَیں نے نوٹس کی، وہ یہ ہے کہ تعلیم، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کی جانب ان کا بہت رحجان ہے۔ والدین کی بجائے بچّے خود اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر پورےخلوصِ نیّت سے کام کی تکمیل میں جُت جاتے ہیں۔

س: کیا واقعی بلوچستان میں معیاری تعلیم کا فقدان ہے؟

ج: مَیں اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ ایسا وہی لوگ کہتے ہیں، جو بلوچستان کے حوالے سے معلومات نہیں رکھتے۔ ہماری نسلِ نو ہر شعبے میں مُلک کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں بھی جس صوبے میں تہذیبوں کا امام، مہر گڑھ اپنی شان دار تاریخ کے ساتھ موجود ہو، وہاں ذہانت اور شعور میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

س: آپ کن کن اداروں سے وابستہ رہے ہیں؟

ج: مَیں براہوی اکیڈمی کا رکن اور براہوی ادبی سوسائٹی کا چیئرمین رہا۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے بعد محکمہ اطلاعات میں بطور انفارمیشن آفیسر تعینات ہوا اورماہ نامہ اولس کا ایڈیٹر بھی رہا۔ بعد ازاں بلوچستان یونی وَرسٹی میں براہوی زبان کا لیکچرارمقرر ہوا، اس کے بعد تمام تر توجّہ تدریسی، تحقیقی اور ادبی شعبوں پر مرکوز کر دی۔ اور یہ تمام کام یابیاں بس اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہی ہے کہ جس نے اپنے ایک ادنیٰ سے بندے کو یہ مقام عطا کیاکہ وہ بلوچستان کی دو نئی یونی وَرسٹیز کا پہلا اور بانی وائس چانسلر بنا۔

س: تمغۂ امتیاز کے علاوہ اور کون سے اعزازات ملے؟

ج: تمغۂ امتیاز کے علاوہ ایچ ای سی کی جانب سے بہترین استاد کا اعزاز مل چُکا ہے، جب کہ مختلف تصنیفات پر حکومتِ بلوچستان اور اکادمی ادبیات، پاکستان اور دیگر عالمی ادبی اداروں کی جانب سے بھی کئی ایوارڈز سے نوازا جا چُکا ہے۔

س: اپنی تصنیفات کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: میری چھے زبانوں میں بیس سے زائد تصنیفات و تالیفات منظرِ عام پر آچُکی ہیں، جب کہ تحقیقی مقالات کی تعداد بھی ایک سو کے قریب ہے۔نیز، بلوچ تاریخ و ثقافت اور پاکستانیت پر اردو، انگریزی، بلوچی، براہوی، پنجابی، عربی، جاپانی اور چینی زبانوں میں لکھ چُکا ہوں۔ یہی نہیں، سات زبانیں باقاعدہ لکھ اور بول سکتا ہوں۔

س: کن شخصیات سےمتاثر ہیں ؟

ج: تاج محمّد تاجل اور محمّد عمر دین پوری براہوی ادب کے وہ نام ہیں، جنہیں دیکھ تو نہیں سکا، لیکن ان کے کلام سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نیز، غلام نبی راہی، ڈاکٹر عبدالرحمان براہوی، عبداللہ جان جمالدینی، نادر قمبرانی، عبدالرحمان کُرد وغیرہ سے خُوب استفادہ کیا۔

س: ہمارے ہاں شعبۂ تعلیم سے مستقل وابستگی ایک انتہائی مشکل کام سمجھا جاتا ہے، آپ اس بات سےکس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اساتذہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں، جو باقی دنیا کے اساتذہ کو حاصل ہے۔ تاہم، اگر کوئی خدمتِ خلق اور نسلوں کے سنوارکا جذبہ لے کر اس شعبے کی طرف آئے، تو پھر جو قلبی و روحانی سکون تعلیم و تدریس میں ہے، وہ کسی اور شعبے میں نہیں۔

س: دوبارہ زندگی ملے، تو کیا بننا پسند کریں گے؟

ج: جتنی بار بھی زندگی ملے، ہر بار درس و تدریس ہی کے شعبے سے وابستہ ہونا چاہوں گا کہ اپنے مُلک کا مستقبل سنوارنے سے بہتر کام اور کیا کام ہو سکتا ہے۔

س: ماہرِ تعلیم نہ ہوتے، تو کیا ہوتے؟

ج: بچپن میں سرجن بننے کا شوق تھا، لیکن اس حوالے سے کوئی خاص رہنمائی حاصل نہ ہوسکی، کسی زمانے میں انجینئر بننے کا بھی شوق تھا، لیکن وہ بھی نہ بن سکا۔ ہاں، ڈاکٹر تو بن گیا، لیکن شعبۂ طِب کا نہیں۔ مَیں ان لوگوں میں سے ہوں، جن پر اللہ پاک کا بہت کرم ہے، اُس مالک نے مجھےاہلیت اور حیثیت سے زیادہ نوازا، جس شعبے سے وابستہ رہا، خُوب نام اور عزّت کمائی۔ ادب کی دنیا ہو، درس و تدریس، تحقیق یا اعلیٰ انتظامی مناصب ، والدین کی دعائوں سے ہر شعبے میں سُرخ رُو رہا۔

س: یونی وَرسٹیزکی نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں سے متعلق کیا کہیں گے؟

ج: یونی وَرسٹیز ہی نہیں، تمام تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کےساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی بھی بہت اہمیت ہے، ان ہی سے طلبہ کی فنی، علمی و ادبی، انتظامی اور دیگر صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور پھر یہی صلاحیتیں عملی زندگی میں کام آتی ہیں۔ سو، تمام تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ اس جانب خصوصی توجّہ دیں۔

س: یونی وَرسٹیز میں موجود کتب خانوں سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: اب چوں کہ جدید ٹیکنالوجی کا دَور ہے، تو موبائل کی صورت ایک کتاب کیا، پورا کتب خانہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بہرحال، ایک منظّم لائبریری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لہٰذا تمام ترکتب خانے جدید سہولتوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پھر ڈیجیٹل لائبریریز چوں کہ طلبہ کو علمی، تحقیقی اور تخلیقی ماحول فراہم کرتی ہیں، تو اس جانب بھی توجّہ مرکوز کی جائے۔

س: بیش ترتعلیمی اداروں میں علمی و ادبی سرگرمیاں ماضی کے مقابلے میں کم کیوں ہوگئی ہیں؟

ج: تاریخ گواہ ہے کہ جامعات ہی علم و ادب، تحقیق و مباحث کی مرکز و منبع رہی ہیں۔ اب بھی دنیا بھر میں اہم مسائل کے حل کے لیے جامعات ہی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی سرگرمیوں میں کمی کی کئی وجوہ ہیں، جیسے مطلوبہ اور ناگزیر انتظامی سرپرستی کا نہ ہونا، اداروں کا محض نصابی سرگرمیوں تک محدود رہنا، شعبوں کے ماہرین اور جامعات میں موجود اساتذہ کے درمیان تعلق و روابط کا فقدان، دانش وَروں کی جامعات سے لاتعلقی اور طلبہ و اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا وغیرہ۔

اس ضمن میں شعبوں کے سربراہان اور درس و تدریس سے ہٹ کر دیگر ماہرین کے درمیان ربط و ضبط مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان شعبوں میں جاری تحقیق اور مباحث میں جامعات سے باہر کے ماہرین کی آرا بھی شامل ہوسکیں، جس سے مجموعی طور پر معاشرے میں بہتری آئےگی۔ سب سے اہم بات یہ کہ والدین کو بھی تعلیمی سرگرمیوں سےمتعلق جان کاری ہونی چاہیے۔ تاکہ انہیں درپیش مشکلات کا بروقت ازالہ ہوسکے۔ یاد رکھیں، معیاری تعلیم کے بغیر مُلک و قوم کی ترقّی کسی صُورت ممکن نہیں۔