• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بدلتی دُنیا میں انسانوں نے بعض چیزوں کی ہیئت اس حد تک بدل دی ہے کہ اصل و نقل کا فرق ہی دھندلا گیا ہے، خاص طور پر اگر صحت کی بات کریں، تو کیا صحیح ہے، کیا غلط، کس شے کا استعمال مفید ہے اور کون کون سی اشیاء مضرِ صحت ثابت ہیں؟ یہ سب جاننا ایک مشکل امر بن چُکا ہے، کیوں کہ Urbanization یعنی شہرکاری اور صنعت کاری (Industrialization) کے صرف ثمرات ہی نہیں، کئی نقصانات بھی ہیں اور افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے بات کرنا انتہائی غیر اہم تصّور کیا جاتا ہے۔

سائنسی اور ارتقاء کے حوالے سے عام رائے ہے کہ ’’ہر وہ چیز جو ارتقائی اعتبار سے جدید ہو، انسانوں کے لیے مفید ہے‘‘ جو قطعاً درست نہیں۔ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘، بالکل درست ہے، لیکن جب ایجاد ایک منہ زور، ناتجربہ کار بچّے کی شکل اختیار کرلے، تو انجام کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہوتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں میں شعبۂ طب نے ترقّی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں۔ ماضی میں جو امراض لاعلاج تصوّر کیے جاتے تھے، ان کا کام یاب علاج دریافت کیا گیا۔ 

پھر وینٹی لیٹر، اعضا کی پیوند کاری اور Biological Pharmacotherapy وغیرہ نے علاج کے مراحل سہل کیے،لیکن علاج معالجے کی جدید سہولتوں کی دست یابی کے باوجو دنہ صرف امراض کی پیچیدگیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، بلکہ متعدّد عوراض کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ زندگی گزارنے کے نت نئے رجحانات ہیں، جنہوں نے فطری خدوخال میں بگاڑ پیدا کرکے جسمانی توازن، غیر متوازن کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دَور میں مختلف عوارض وبائی صُورت اختیار کررہے ہیں، جن میں ذیابطیس کا بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ذیابطیس دُنیا بَھر سمیت پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

ماہرینِ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پھیلاؤ کی یہی شرح برقرار رہی، تو2025ء تک صرف پاکستان میں 11.6ملین افراد اس بیماری کا شکار ہوجائیں گے۔ یعنی دُنیا کی کُل آبادی کا 8 فی صد حصّہ پاکستان میں پایا جائے گا۔ نیز، ان مریضوں میں بچّوں اور نو عُمر افراد کی تعداد زیادہ ہو گی۔ ماضی میں یہ مرض صرف اعلیٰ طبقے کا تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اب درمیانے اور نچلے طبقے میں بھی اَن گنت کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، جو بہرحال باعثِ تشویش ہیں کہ ایک تو ذیابطیس کا علاج خاصا منہگا ہے، پھر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا رش زیادہ ہونے کے سبب اکثر مریض معائنے کے بعد دوبارہ معالج سے رجوع نہیں کرتے، جب کہ نجی اسپتالوں تک سفید پوش یا کم آمدنی والے افراد کی رسائی ممکن نہیں، جس کا نتیجہ ذیابطیس کی پیچیدگیوں کی صُورت ظاہر ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں عمومی طور پر ذیابطیس کو ایک بیماری سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے لاحق ہونے کے بعد مذکورہ فرد صحت مند نہیں رہتا اور اگر علاج کے معاملے میں احتیاط نہ برتی جائے، تو معیارِ زندگی بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ خدانخواستہ دِل، گُردے وغیرہ فیل ہوجائیں، تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ذیابطیس کو ایک بیماری مانا جائے، تو اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوجائے گا۔ 

درحقیقت، دُنیا بَھر کے معالجین کا ماننا ہے کہ’’ ذیابطیس کوئی بیماری نہیں، بلکہ ایک جسمانی بگاڑ کا نام ہے، جس میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ منفی طرزِ زندگی ہے۔‘‘ یعنی ذیابطیس لاحق ہونے کا سبب زندگی گزارنے کا غیر معیاری طریقہ ہے اور یہی طریقہ ذہنی و جسمانی صحت کو بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر کرتا ہے۔ واضح رہے،90 فی صد سے زائد افراد میں ہارمونل نظام کی خرابی نہیں، بلکہ میٹا بولزم کی گڑبڑ ذیابطیس لاحق ہونے کی وجہ بنتی ہے۔

یعنی اس حالت کا تعلق انسولین ہارمون کی کمی سےنہیں، بلکہ جسم میں موجود اعضاء، خصوصاً جگر کی چربی کی وجہ سے خارج ہونے والی ایسی کیمیائی رطوبتوں سے ہے، جن کی بدولت جسم میں پائی جانے والی انسولین کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ واضح رہے کہ انسولین ہی کی وجہ سےکاربوہائیڈریٹ جسم میں قابلِ استعمال رہتا ہے اور خلیوں کے اندر داخل ہو کرخوراک فراہم کرتا ہے۔ 

انسولین، شکر کی صُورت خون میں پائی جاتی ہے اورعمومی طور پر جگر سمیت مختلف اعضاء اسے چربی کی حالت میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ اگر ان اعضاء میں چربی جمع ہونے کا عمل روک دیا جائے،تو نہ صرف ذیابطیس پر قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ اس سےبچاؤ بھی ممکن ہے۔ مگر مسئلے کا یہ حل اتنا آسان نہیں، کیوں کہ موجودہ دَور کے جدید طرزِ زندگی میں عدم توازن کے سبب نصف سے زائد آبادی جگر کی چربی (فیٹی لیور )کے مرض کا شکار ہے، جو آگے چل کر زیادہ تر کیسز میں ذیابطیس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

طرزِ زندگی میں عدم توازن کی کئی وجوہ ہیں، جن میں سرِفہرست غذائی عادات ہیں۔ مثلاً ہمارے یہاں ناشتےکا رجحان تقریباً ختم ہی ہوتا جا رہا ہےاور اگر کیا بھی جائے، توعموماً 11بجے کے بعد کیا جاتا ہے۔ بچّوں کا خالی پیٹ اسکول جانا اور پھر 11بجے کے بعد مرغن اور پراسیسڈ غذاؤں کا استعمال خطرناک حد بڑھ چُکا ہے، جو کسی بھی طرح صحت کے لیے مفید نہیں۔ 

اکثر افراد کا کہنا ہے کہ بَھرپور ناشتا کرنے سے وزن بڑھ جائے گا، تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ صُبح کا بَھرپور ناشتا، دِن بَھر انجام دئیے جانے والے امور کے لیے چاہے وہ ذہنی ہوں یا جسمانی توانائی، بہترین فراہم کرتا ہے اور جسم میں اضافی چربی کی صُورت ہرگز جمع نہیں ہوتا۔ 

البتہ سفید آٹے، چینی اور سفید چاول (Polished Rice) کا استعمال قطعاً سود مند نہیں، کیوں کہ ان میں موجود Refined Carbخون میں فوراً ہی شامل ہوکر مفید خوراک بننے کے بجائے جسم کے مختلف اعضاء، خصوصاً جگر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح دوپہر میں بھی کچھ ہلکا پھلکا کھانے کا رجحان نہیں رہا۔ دیکھا گیا ہے کہ سبزی، دہی یا پھل وغیرہ استعمال کرنےکے بجائے گھروں یا دفاتر میں موبائل ایپ کے ذریعے فاسٹ فوڈز یا روغنی کھانے منگوا کر بھوک میں یا بغیر بھوک کے وقت بے وقت کھا لیے جاتے ہیں۔ پھر رات کا کھانا بھی آدھی رات کو کھانے کا رجحان ہے۔ 

اکثر نو عُمر افراد اور بچّے رات رات بَھر جاگ کرویڈیو گیمز کھیلیں یا دیگر سرگرمیوں میں مشغول رہیں، مگر رات کے پچھلے پہر کھانے کا جواز ضرور رکھتے ہیں۔ یاد رہے، بعد از مغرب ہمارا جسم آرام کی حالت میں چلاجاتا ہے اور جسم کاMetabolic Rate یعنی قوّتِ ہاضمہ سُست پڑجاتی ہے، لہٰذا جو بھی کچھ کھایا جائے، وہ چربی کی صُورت جسمانی اعضاء میں جمع ہونے لگتا ہے۔ غرض کہ اس جدید طرزِ زندگی میں ایسا کچھ نہیں کیا جارہا، جوعدم توازن کے سائیکل کو روک سکے۔ پھر ورزش کی عادت بھی ختم ہو چُکی ہے۔ 

بچّے اور بڑے زیادہ تر کمپیوٹر، موبائل ہی پر وقت گزار کر خوش ہو جاتے ہیں اور والدین اس امر پر مطمئن رہتے ہیں کہ بچّہ گھر پر ہے، کہیں باہر نہیں گیا۔ حالاں کہ روزمرّہ کی جانی والی کسرت نہ صرف اعضاء پر چربی چڑھنے نہیں دیتی، بلکہ اسے زائل کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ متعدّد افراد بظاہر فربہی مائل نہیں ہوتے، مگر ان کے اعضاء پر بھی چربی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے، جو آگے چل کرذیابطیس کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ کم زور افراد ذیا بطیس کا شکار نہیں ہوتے، ان میں بھی ذیابطیس سے متاثر ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ 

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فربہی مائل اور کم زور افراد دونوں ہی میں ذیابطیس سے متاثر ہونے کا امکان پایاجاتا ہے، تو پھر مرض سے بچاؤ کی کیا صُورت ہوسکتی ہے؟توسب سے پہلے یہ غور کریں کہ آپ کھاتے کیا ہیں ، کتنی مقدار میں اور کن کن اوقات میں۔ غذائی عادات کے ضمن میں یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ ناشتا باقاعدگی سے کرنا ہے، کیوں کہ رات بَھر کی نیند کے بعد صُبح جسم کو بَھرپور غذا کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اپنےدِن کا آغاز بَھرپور ناشتے سے کریں، تاکہ پورا دِن چاق چوبند گزرے۔ ناشتا آٹھ یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے آٹھ بجے تک کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ 

ایک بَھرپور ناشتے میں کاربوہائیڈریٹ، چکنائی، پروٹین، حیاتین اور معدنیات شامل ہونی چاہئیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد افراتفری میں ناشتا کرتے ہیں، تو اس سے بھی گریز کریں کہ یہ فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بنتا ہے۔ سفید آٹے، چینی اور سفید چاول کا استعمال کم کر دیں۔ دوپہر کا کھانا ہلکا اور بھوک رکھ کر کھائیں۔ موسمی سبزیاں اور پھل ضرور استعمال کریں۔ کبھی کبھار ایک وقت کے کھانےمیں چاول اور روٹی سرے سے شامل نہ کیے جائیں۔

رات کا کھانا مغرب کے بعد کھالیں، کیوں کہ اس طرح کھانا بہتر طور پر ہضم ہوجاتا ہے۔ چاہے ظہرانہ ہو یا عشائیہ ہمیشہ متوازن غذا استعمال کریں۔ ماہرینِ اغذیہ نے متوازن غذا کو ایک غذائی پلیٹ سے تشبیہہ دی ہے اور اس پلیٹ کے تین برابر حصّے کیے گئے ہیں۔ ایک حصّہ اناج سے بنے کھانوں پر مشتمل ہے، جیسے روٹی، چاول، پاستا، ڈبل روٹی وغیرہ۔ 

دوسرا حصّہ ترکاریوں اور پھلوں اور تیسرا حصّہ پروٹین کے لیے مختص کیا گیا ہے۔اس اعتبار سے جب کھانا پلیٹ میں ڈالیں تو آدھی پلیٹ میں سبزی یا پھل ہوں ، ایک چوتھائی پلیٹ میں روٹی یا چاول اور ایک چوتھائی پلیٹ میں گوشت یا پروٹین سے تیار شدہ خوراک ہو۔ درحقیقت یہ تناسب والی غذائی پلیٹ ہی امراض کا توڑ ہے۔

رات جلد سونے کی عادت ڈالیں اور نسبتاً خالی پیٹ بستر پر لیٹیں کہ رات بَھر جسم میں موجود فاضل چربی استعمال ہو جائے گی اور صُبح اُٹھتے ہی آپ کو ایک بہترین ناشتے کی رغبت ہوگی۔ اس کے علاوہ چھوٹے موٹے کاموں کے لیے گھر سے موٹر سائیکل یا گاڑی پر نہ نکلیں۔ نماز پڑھیں اور مسجد بھی پیدل ہی جائیں۔ اس طرح ثواب بھی ملے گا اور ورزش بھی ہوجائے گی۔ نیز، ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کُھلی فضا میں سانس لینا بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ جو افراد مضبوط قوّتِ ارادی اور مثبت سوچ رکھتے ہیں، وہ ذیابطیس پر بآسانی قابو پاسکتے ہیں۔

مشاہدے میں ہے کہ متاثرہ افراد طرزِ زندگی میں تبدیلی، مثبت سوچ اور مضبوط قوّتِ ارادی کے ذریعے مرحلہ وار ذیابطیس سے نجات حاصل کررہے ہیں۔ یعنی وہ ذیابطیس کا شکار ہونے سے پہلے کے مرحلے، پِری ڈائی بیٹیک سے نان ڈائی بیٹیک ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی موجودہ دَور میں بیماری کی روک تھام علاج سے زیادہ اہم گردانی جاتی ہے، لہذا معالجین کی بھی یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کو خاص طور پر طرزِ زندگی تبدیل کرنے کی سخت تاکید کریں۔ 

اس کے علاوہ قناعت اختیار کریں اور متوازن انداز سے زندگی گزاریں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ دولت کی ریل پیل اور بُلند اسٹیٹس مایوسی دُور کرتا ہے، نہ پریشانی۔ البتہ قناعت پسندی دائمی اطمینان اوراچھی صحت کی ضامن ہے۔ آپ کا معیارِ حیات بھی دولت نہیں، مثبت سوچ اور خالص طرزِ زندگی ہونا چاہیے۔ (مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال، کیماڑی میں خدمات انجام دے رہی ہیں)