• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(پہلی قسط)
دُنیا بھر میں آبی ذخائر اور آبپاشی کے منصوبوں کے بارے میں تنازعات کا جنم لیناکوئی نئی بات نہیں ،تاہم کالاباغ ڈیم منصوبے سے وابستہ اختلافِ رائے کے کچھ منفرد پہلو ہیں۔ یہ منصوبہ عملی طور پر ربع صدی سے دفن ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بین الصوبائی نفاق کی زندہ مثال ہے۔ اس منصوبے پر جاری طویل بحث جذبات کو مشتعل کرتی رہتی ہے۔ اِس بحث کے دوران ایسے تند و تیز دلائل پیش کئے جاتے ہیں، جو زیادہ تر نسلی اور صوبائی بنیاد پراستوار ہوتے ہیں۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے اس ترقیاتی منصوبے کے خلاف منظور کی جانے والی متفقہ قراردادوںنے تین چھوٹے صوبوں کو پنجاب کے مقابل صف آرا کردیا ہے اور اِس وجہ سے وفاق کا شیرازہ ،تنائو کا شکار ہے ۔ وفاقی وحدت کے تناظر میںاِس منصوبے کا تذکرہ علامتاً ایک ایسے مسئلے کے اظہار کے طور پرکیا جاتا ہے، جس پر اتفاق رائے کا حصول ناممکن ہو۔
کالاباغ ڈیم سے متعلق دلائل کے ایسے گرداب میں ، جو علاقائی جذبات اور سیاسی صف بندی کی زہریلی موجوں میں گھرا ہوا ہے، واپڈا کے چیئرمین کا از خود کود جانا شاید آپ کو آبیل مجھے مار،جیسا قدم نظر آئے ۔اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس تعیناتی کے دوران ایسے حقائق میرے علم میں آئے جو ان مفروضوں سے مختلف تھے جو اس منصوبے کے بارے میں پھیلے ہوئے ہیں ۔کم و بیش ایک سال قبل میں نے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف سے اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ذاتی حیثیت میں کالا باغ ڈیم منصوبے کے بارے میں مضامین تحریرکرنا چاہتا ہوں ۔ اُنہوں نے مجھے واضح الفاظ میں کہا کہ کالاباغ ڈیم سمیت پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بھی منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل کی متفقہ منظوری کے بغیر تعمیر نہیں کیا جائے گا ،تاہم انہیں میری جانب سے ذاتی حیثیت میں حقائق عوام کے سامنے رکھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ وہ لوگ جو پانی کے مسائل کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں ، ان اختلافی آراء سے متاثر ہیںجن کا پروپیگنڈا اس سارے عرصے میں کیا جاتا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کو واضح کرنے کیلئے مندرجہ ذیل مثال مناسب معلوم ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے ایک قابلِ احترام دانشور جناب ابرار قاضی کی انگریزی زباں میں لکھی تصنیف’’کالاباغ ڈیم : سندھ کا مقدمہ‘‘ کے مطالعہ کے دوران،مجھے یہ تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔ ’’سندھ جس بات کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے وہ کالاباغ ڈیم ہے۔ کالاباغ ڈیم صوبہ پنجاب کی شمالی سرحد کے قریب واقع ہوگا۔ ڈیم کی بائیں جانب سے 15 ہزار کیوسک گنجائش کی نہر نکالے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ نہر میں پانی کا بہائو مغرب سے مشرق کی سمت ہوگا اور اسکے ذریعے ہر سال ڈیم سے 6 ملین ایکڑ فٹ پانی رسول بیراج سے بالائی جانب دریائے جہلم میں منتقل کیا جائے گا ۔‘‘
میں نے انہیں حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کیلئے خط لکھنے کی جسارت کی۔ ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ کالاباغ ڈیم منصوبے کی تکنیکی تفصیلات کے بارے میں ابہام ہے ۔ایک ممکنہ سمجھوتے کو تلاش کرنے کی ایک اوروجہ گزشتہ 25 سال کے دوران اس منصوبے پر ہماری مسلسل بے عملی ہے۔اِس بے عملی کیلئے ہم نے صوبوں کے مابین بظاہر عدم اتفاق کے پیچھے پناہ لی ہوئی ہے۔مگر بدقسمتی سے اختلافِ رائے کے حامل فریقین کے درمیان کسی سمجھوتے کی تلاش کیلئے نہ کوئی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سیاسی سطح پراِس بارے میں کوئی کوشش نظر آتی ہے، جبکہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور انڈس ڈیلٹا میں سمندرکے پانی کی پیش رفت سے پیدا ہونے والے مسائل جاری و ساری ہیں۔ 2012 ء میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اس ضمن میں ہدایات جاری کیں۔ ان کا یہ قدم بھی میری اس کاوش کیلئے ایک حوصلہ افزا محرک ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا’’وفاقی حکومت کی جانب سے حقیقی اقدامات لازم ہیں تاکہ منصوبہ اختلافِ رائے کی خام توجیہات کی نذر نہ ہوجائے ……‘‘یہ بات سب سے اہم ہے کہ تمام صوبے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر پر متفق ہیں۔ ایک ہی دریا کے ایک مقام پر اختلاف اور دوسرے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے پر اتفاق ۔آخر کیوں؟
اس سے قبل کہ کچھ مزیدتحریر کیا جائے، مجھے اس بات کی وضاحت کرنے دیجیۓ کہ میں نے اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کو شامل کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟یہ روایتی دانش مندی کے خلاف ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں ابھی بھی اس بات کا قائل ہوں کہ کسی بھی متنازع معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے خفیہ سفارت کاری کو ہی ترجیح دی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے بارے میں خط و کتابت کے پرانے ریکارڈ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ڈاکٹر محبوب الحق کا ایک خط نظر سے گزرا۔
یہ مکتوب انہوں نے 1986ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی حیثیت سے وزیرپانی و بجلی کو تحریر کیا تھا۔اُن کے الفاظ تھے ’’بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم منصوبہ اس وقت سیاسی تنازعات میں دھنس چکا ہے اور اس منصوبے کے بارے میں کوئی بھی عوامی مباحثہ نقصان دِہ ثابت ہوسکتا ہے۔تاہم یہ بات نہایت اہم ہے کہ خاموشی کے ساتھ اس بارے میں تجزیہ کیا جائے۔
اس بات کو 30 برس گزر چکے ہیں ۔ محترم قارئین ! اب صورت حال کے بارے میں خاموشی سے لائحہ عمل طے کرنے کا وقت گزر چکاہے۔ رویّوں میں سخت گیری آ چکی ہے۔ اس بات کی بہتر وضاحت میری اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک صاحبِ علم شخصیت کے ساتھ بات چیت سے ہو سکتی ہے۔ میرے اس سوال پر کہ کالاباغ ڈیم جس کی مخالفت کی جاتی ہے اور
دیامر بھاشا ڈیم، جس کی تعمیر پرتمام صوبے متفق ہیں، ان دونوں منصوبوں میں کیا فرق ہے، وہ خاموش رہے ۔ میں نے ہمت نہ ہاری۔ ’’سر! دونوں منصوبے دریائے سندھ پر ہیں، دونوں کے ذریعے پانی کاذخیرہ کیا جائے گا اور دونوں بجلی بھی پیدا کریں گے۔ خیبرپختونخوا کو کالاباغ ڈیم کی جائے وقوع کے حوالے سے مسئلہ ہے مگر سندھ کو جائے وقوع کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں ‘‘ انہوں نے یہ کہہ کر اس موضوع پر مزید بحث کے امکان کویکسر ختم کر دیا۔ ’’یہ منصوبہ کالا ہے، کالا ہے ، کالا ہے اور یہ کبھی سفید نہیں ہوسکتا۔‘‘اپنی زبان بند رکھنے کی اس تنبیہ کے بعد میں اس بات کا قائل ہوگیا ہوں کہ صرف ذرائع ابلاغ ہی اس منصوبے کے بارے میں حقائق کو عوام الناس کے علم میں لانے کیلئے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں مضامین کا یہ سلسلہ تین موضوعات پر محیط ہے۔ پہلا موضوع دنیا بھر میں مختلف ممالک کے درمیان تنازعات اور ایک ہی ملک کے مختلف صوبوں یا ریاستوں کے درمیان آبی مسائل اور اُن کے حل کی کوششوں پر مشتمل ہے، جس میں آبی ذخائر تعمیر کرنے کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ دوسرا موضوع کالا باغ ڈیم کے بارے میں حقائق کے بیانیہ پر مشتمل ہے تاکہ اس منصوبے کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے جبکہ تیسرے اور آخری حصے میں اس منصوبے پر ایک مکمل معاہدے کے خدو خال وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگلے چند مضامین میںاُن بین الاقوامی تجربات کا تذکرہ کیا جائے گا، جن کی مدد سے اسی نوعیت کے پیچیدہ مسائل کو حل کیاجاچکا ہے جو پہلے عدم اعتماد کا شکار تھے۔سندھ دنیا کا وہ واحد دریائی سلسلہ نہیں ہے، جس میں ایک سے زیادہ ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقے شراکت دار ہیں۔ ہمیں اس بارے میں جاننے کی ضرورت ہے کہ دوسرے لوگوں نے کس طرح کامیابی کے ساتھ پانی سے متعلق اپنے اختلافات دور کئے ہیں۔ مضامین کے اس سلسلے میں مختلف ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان، پانی کے گمبھیر مسائل کو حل کرنے کیلئے دنیا کے تقریباً تمام براعظموں سے ایسی کامیاب کوششوں کو مثال کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
پاکستان میں پانی کے بہت سے مسائل ہنوز حل طلب ہیں ، مثلاً خشک سالی کے دوران کس طرح صوبوں کیلئے متعین پانی کی مقدار میں کمی لائی جائے ؟ ہمارے آبی ذخائر میں پانی بھرنے اور بعد ازاں اُسے خارج کرنے کیلئے کوئی متفقہ طریقہ کار (SOP)موجود نہیں۔ ہمیں ایک ایسامؤثر پروگرام وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے ، جس کے تحت پانی کے باقاعدہ (Controlled) اخراج کے ذریعے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو محفوظ رکھا جاسکے اور سمندر کے کھارے پانی کو اِس ڈیلٹا کے اندر آنے سے روکا جاسکے۔ ہمارے یہاں نہروں کو پختہ کرنے اور آبپاشی کے موجودہ اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا بھی کوئی معاہدہ موجود نہیں ۔ بیشتر لوگ میری اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اگر ہمیں اپنے آبی مسائل حل کرنے کیلئے کسی جامع سمجھوتے تک پہنچنا ہے تو یہ بات بنیادی حیثیت کی حامل ہے کہ کالاباغ ڈیم سے وابستہ تنازع کو حل کیا جائے۔ مجھے پوری امید ہے اور میں اس بات کیلئے دعا گو ہوں کہ میری اس کاوش کواُسی جذبے کے ساتھ پرکھا جائے گا جس خلوصِ دل کے ساتھ مضامین کا یہ سلسلہ تحریر کیا گیا ہے۔
تازہ ترین